ہزار ظلم ہوئے راج باج کی خاطر
ہزار قتل ہوئے تخت و تاج کی خاطر
کئی سروں کو اچھالا گیا ہے نیزوں پر
لہو کی ہولیاں کھیلیں رواج کی خاطر
چمن کے کان میں گونجی صبا کی نعرہ زنی
جلائیں مشعلیں اب احتجاج کی خاطر
سروں کی پگڑیاں تا بہ فلک نظر آئیں
ہوئیں جو بیٹیاں قربان لاج کی خاطر
میں تشنہ چشم ہوں آبِ زلال میرے لئے
ہو جیسے چشمہ زم زم حجاج کی خاطر
نجانے کس لیے گھر لوٹ کر نہیں آئے
جو لوگ گھر سے گئے کام کاج کی خاطر
نگارشیں مری تنقیص کا نشانہ ہیں
ہزاروں سنگ ہیں شیشہ مزاج کی خاطر
کیا جو شہر میں صابر نے دعویِ حکمت
ہزاروں زخم ملے ہیں علاج کی خاطر