بیٹھے ہوئے ہیں عمر سے تنہائی اوڑھ کر
اک بے وفا کے نام کی رسوائی اوڑھ کر
محفل میں غیر بن کے چرائی تھی جس نے آنکھ
آیا ہے میرے پاس شناسائی اوڑھ کر
دلکش ذرا ذرا سی ہے فرقت کی چاندنی
پھیلی ہوئی ہے ہجر کی رعنائی اوڑھ کر
دیکھے ہیں دل کی آنکھ سے اوراقِ زندگی
ہم نے پڑھا ہے زیست کو سچائی اوڑھ کر
آواز دے رہا ہے کوئی سنگ و خشت کو
خاموشیوں کے شہر میں گویائی اوڑھ کر
کوہِ ندا سے لوٹ کر آئی مری صدا
میرے ہر ایک غم کی مسیحائی اوڑھ کر
ملتے نہیں ہیں گھر پہ اگرچہ وہ آج کل
جاتے رہیں گے ہم بھی جبیں سائی اوڑھ کر
میری طرح سے چاند بھی دستِ جنوں میں ہے
دیکھا ہے میں نے دیدۂ صحرائی اوڑھ کر
پہلو میں کھِل رہا ہے ملاقات کا گلاب
مہکی ہوئی ہے رات پزیرائی اوڑھ کر
نیلمؔ چلو کلام کریں بوئے گل سے آج
دشتِ جنوں میں پھول کی زیبائی اوڑھ کر