دل یہ ناداں شدّتوں سے بار بار
کر رہا ہے گل رتوں کا انتظار
آج کی شب کوچ کرلوں یا رکوں
تجھ کو ہے ہر فیصلے پر اختیار
پوچھتا ہے بے یقیں لہجے میں چاند
' کون رہتا ہے ترا سرحد کے پار '
جسم سے جانی تو ہے جان ایک دن
تیرے بعد اب کیا کسی کا اعتبار
اب کے اندیشے بھی سچ ثابت ہوئے
ہوگیا پندارِ چاہت، تار تار
جھوٹ ہی کہہ دے مجھے کوئی کہ وہ
' مان جائے گا ابھی، ہمت نہ ہار '
معتبر، شاید نہیں رشتے ابھی
تُو بھی نادم ہے تو میں بھی شرمسار
دیکھ لی من مانیاں نادان دل؟
رو رہا ہے کس لئے اب زار زار!
تم ہی بس ، حد سے تجاوز کر گئے
مبتلا تو وہ بھی تھا دیوانہ وار