نہ دیکھو گے پلٹ کر تُم یہ اپنا آشیاں کب تک
مگر اِس قلبِ ویراں پر رہو گے مہرباں کب تک
یہ دنیا کُچھ نہ ہونے کا سمندر ہے یہاں کب تک
کِسی کے عشق کا جاری رہے گا امتحاں کب تک
دلِ بے تاب سے یونہی رہو گے بد گماں کب تک
سُنے گا خود فلک آخر مِری آہ و فغاں کب تک
تُمھاری منتظر تھیں آج میری ڈُوبتی آنکھیں
رہیں گے یہ مِرے آنسو مِرے بھی ترجماں کب تک
مِرا تو کچھ نہیں یونہی سدا روتا رہا ہوں میں
مگر اِس دہر میں تم بھی رہو گے شادماں کب تک
محبّت ہی کے دم سے زندگی کی شمع روشن تھی
یہاں باقی رہے گی اب ہماری داستاں کب تک
تُمہاری ہوشمندی کا ٹھِکانہ ہی اُدھر کیا ہے
اِدھر باقی ہیں بےکلؔ کی تو یہ نادانیاں کب تک