تخیل کو سجانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
غزل کو گنگنانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
سمجھنے اور بتانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
خموشی کوسنانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
کوئی بھی زخم ہنسکر بھول جاتے ہیں مگر یارو
ہمیں آنسو چھپانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
سنو تھامے رکھو امید کا دامن کہ کہتے ہیں
اندھیرو کو مٹانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
کہاں پہلے سی باتیں قہقہے وو بےسبب گوہرؔ
سنو اب مسکرانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے