گرچہ بے رغبتی ہی دائم ہے
میری امید پھر بھی قائم ہے
میری آنکھوں میں گھومتی ہے جو
آنکھ اک شربتی سی نائم ہے
مولوی جی خطاب میں بولے
عشقیہ شاعری کرائم ہے
خود تو ہاتھوں میں ہاتھ لے لے کر
بولتے ہیں سبھی ملائم ہے
ہم سے بولیں بہت بزی ہوں میں
ان سے ملنے کا پھر بھی ٹائم ہے