نظر کو جو گُلِ رعنا دکھائی دیتا ہے
چمن کدے میں وہ یکتا دکھائی دیتا ہے
وہ ایک ابر بجھائے گا پیاس کس کس کی
اداس پیاس کا صحرا دکھائی دیتا ہے
جو بات بات پر اڑتا ہے سر پھروں کی طرح
مجھے وہ آج بھی مجھ سا دکھائی دیتا ہے
کنوئیں کے ڈول میں ممکن ہے کوئی یوسف ہو
کنوئیں کی تہ میں اجالا دکھائی دیتا ہے
دعا کے ہاتھ میں شاید کوئی مداوا ہو
جہان سارا سسکتا دکھائی دیتا ہے
جو شام ہی سے فضاؤں میں ہو گیا معدوم
سحر کے ساتھ ابھرتا دکھائی دیتا ہے
جھکانا چاہا جسے کچھ ستم طرازوں نے
وہ کٹ کے آج بھی اونچا دکھائی دیتا ہے
میں جان دے کے خریدوں گا زندگی صابر
یہ سودا پیار کا سستا دکھائی دیتا ہے