ایک اک بوند ،رگِ جاں میں اتر جانے دے
بھیگتی رت ہے مجھے اور نکھر جانے دے
ہاتھ ہاتھوں میں لیے بیٹھا ہے ، کیسے کہہ دوں
'شام ڈھلنے لگی اب لوٹ کے گھر جانے دے'
پونچّھ مت اس کو مسرت سے چھلک آیا ہے
اشک آنکھوں میں تجھے دیکھ کے بھر جانے دے
بعد میں پوچھنا گہرائی کا مطلب ہم سے
پہلے کشتی کو سمندر میں اتر جانے دے
جانتی ہُوں کہ جدا دونوں کے رستے ہیں،مگر
مُجھ کو خوابوں کی گلی سے تو گزر جانے دے
ضبط ٹوٹے گا تو دریا تجھے لے ڈوبے گا
اور کچھ دیر ابھی اشکوں کو ٹھہر جانے دے
ٹوٹ جائے نہ کہیں سانس کی کچّی ڈوری
تُجھ سے ملنا تھا،بس اِک بار مگر جانے دے