بَھلا دنیا کو جانے کیا ہوا ہے
برا کہتی ہے اس کو جو بھلا ہے
کہا ہے سچ تو ہوں معتوب گھر میں
کہ ہر اک فرد اب مجھ سے خفا ہے
صدا ہر آن دل دیتا ہے تجھ کو
مری دھڑکن میں تو ہی بولتا ہے
مسائل سے ہے ہر پل جنگ جاری
یہ جینا بھی تو جیسے معرکہ ہے
مصائب کا اسے ہو خوف کیوں کر
سدا جو حادثوں سے کھیلتا ہے
ٹھکانے کی یہ تبدیلی ہے انور
جہاں میں نام جس شےکا قضا ہے