میری بانہوں کا سہارا ہے تمہاری خاطر
اور ان آنکھوں کا اشارہ ہے تمہاری خاطر
جس طرح چاہو صنم دل سے ہمارے کھیلو
ہر ستم ہم کو گوارا ہے تمہاری خاطر
تم تو ہو جان غزل جان وفا جان بہار
جینا مرنا بھی ہمارا ہے تمہاری خاطر
اس پہ تسکین کا مرہم ہی لگا دو آ کر
ہم نے زخموں کو سنوارا ہے تمہاری خاطر
چاندنی رات کا محور یے فلک پر جو بنا
وہ مقدر کا ستارا ہے تمہاری خاطر
کشتی کے مقدر میں بھنور ہے شاید
اور دریا کا کنارہ ہے تمہاری خاطر
سرمئی شام کی رنگت ہے گلابی جیسے
یہ حسیں سعد نظارہ ہے تمہاری خاطر