زمان و مکاں سے ہے آزاد عشق
ازل سے ابد تک ہے آباد عشق
کہا میں سناؤں کیا کوئی غزل
کہا اس نے ارشاد ارشاد عشق
میں سود و زیاں کا نہ طالب رہا
مرے دل کی اک ہی ہے فریاد عشق
رقیبو مجھے بدّعا تم نہ دو
کبھی ہوسکے گا نہ برباد عشق
کہ کوہ و دمن سے بھی بھاری ہے وہ
کہ ہے جتنا مضبوط فولاد، عشق
لہو میں رواں ہے نسل در نسل
رہی خوئے آباء و اجداد عشق
کہ یاروں نے عرفاں سے کہہ ہی دیا
ہمارا ہے بس اک ہی استاد عشق