مقتل گزر کے آئے سزاوار ہم ہوئے
دیکھو تمہاری چاہ میں غدار ہم ہوئے
کوئے صنم میں آئے ہیں کیا کیا نہ دل کے خواب
رخسار و چشم و لب کے طلبگار ہم ہوئے
اب احتراز منزلِ گریہ کناں ہے رات
صبحِ فراق نقش بہ دیوار ہم ہوئے
پوچھیں تو کون کون ہے اب باوفا یہاں
کوئے وفا میں حسرتِ دیدار ہم ہوئے
رہزن سے اپنی راہ میں سودا نہیں کیا
رہبر سے اپنی راہ میں بیزار ہم ہوئے
اتنا لہو دیا ہے کہ پھیکے پڑیں نہ رنگ
اب کے چمن کے غازہِ رخسار ہم ہوئے
یوسؔف یہ دل بھی مصر کا بازار ہی تو ہے
سو بار بک کے تیرے خریدار ہم ہوئے