سرِ منظر پسِ منظر سے ہٹ کر سامنے آئے
کبھی تو اپنے پیکر سے وہ باہر سامنے آئے
کبھی ترتیب دینے ہم جو بیٹھے داستاں اپنی
تم ہی فکرو نظر کا بن کے محور سامنے آئے
لگے اٹکھیلیاں کرتا ہو جیسے چاند بدلی سے
تیری زلفیں بکھر کر جب بھی رخ پر سامنے آئے
کچھ ایسے بھی جیالے تھے بقائے دیں کی خاطر جو
سرِ میداں ہتھیلی پر لئے سر سامنے آئے
ہمارے تجربے کا معترف ہونا پڑا آخر
زمانے بھر کی جب وہ کھا کے ٹھوکر سامنے آئے
زمانے شکریہ تیرا دکھایا آئینہ تو نے
نہاں تھے جو مِری فطرت میں جوہر سامنے آئے
لرز اُٹھے در و دیوار عالم قصرِ شاہی کے
بدل کر اپنا تیور جب قلندر سامنے آئے