جونہی گلشن میں ذرا سہمی ہوا تیز ہوئی
ادھ کھلے پھول کی شاخوں پہ صدا تیز ہوئی
جل اٹھے آنکھ کے پردے پہ مناظر سارے
ایسے بجھتے ہوئے سورج کی ضیا تیز ہوئی
جب بھی دیکھا مرا جلتا ہوا گھر یاروں نے
اشک آنکھوں میں تھے دامن کی ہوا تیز ہوئی
اڑ گئے سارے پرندے جو بھری شاخوں سے
دل کے ہر داغ سے حسرت کی نوا تیز ہوئی
میری بے خواب نگاہوں میں کئی خواب جگے
سرمئی شام میں جب باد صبا تیز ہوئی
جب بھی الجھی مرے خرمن سے کبھی تیز ہوا
کانپتے ہونٹ لیے لب پہ دعا تیز ہوئی
تار جب چھیڑ دیے مہر و وفا کے دل نے
پیکر جور سے ہر لحظہ جفا تیز ہوئی
جتنی شدت سے بڑھیں دل کی امنگیں تابشِ
اتنی شدّت سے مری اور قضا تیز ہوئی