تیری باتوں میں اب یونہی کب تک آ کر دیکھوں گی
مجھ سےملواؤ میں اس کوخوب جما کردیکھوں گی
تیری غزلوں میں ہے جیسی کیا ویسی ہے بولی ماں
اک دن اس کوغورسےاپنے پاس بٹھا کر دیکھوں گی
اس کو کہنا وقت نکالے ماں کہتی ہے آنے دو
سچ میلی ہو جاتی ہے کیا ہاتھ لگا کر دیکھوں گی
ہنستی ہے تو پھول بکھرنے کا تم نے جو شعر کہا
تیرا شعر سنا کر اس کو آپ ہنسا کر دیکھوں گی
تتلی چھوڑ کےپھولوں کو کیااس کاچہرہ چومتی ہے
باغیچے میں اس کو اپنے ساتھ پھرا کردیکھوں گی
کہتے ہو یاقوت کے جیسے ہونٹ ہیں تیری رانی کے
خرم تیری انگوٹھی سے ہونٹ ملا کر دیکھوں گی