یہ نہ سمجھوکوئى کہانی ہے
لب پہ ررودادِ زندگانی ہے
دامنِ صبر چھوڑ دوں کیسے
میرے اجداد کی نشانی ہے
اب نہیں جانتا مجھے تو کیا
غم سے پہچان تو پرانی ہے
وہ بھی آیاہےخامشی اوڑھے
رات بھی کس قدرسہانی ہے
چار پیسوں کی بات کر یارا
یہ محبت تو آنی جانی ہے
دیکھ ہم کھارہےہیں غم تیرا
کیا کریں بھوک تو مٹانی ہے
آج پرواز کر رہی ہے امین
میری تخلیق پر جوانی ہے