یہ جو افکار میں سوز ِنہاں رکھاہواہے
کہاں کا بوجھ تھا لیکن کہاں رکھا ہوا ہے
کسی نے کھینچ دی ہے حد ِ فاصل سامنے یوں
وہ سنگِ میل جو اک بے نشاں رکھا ہوا ہے
کوئی خواہش ہے دل میں اب نہ کوئی آ رزو ہے
یہ دل سینے میں اب تو رائیگاں رکھا ہوا ہے
دعا ہے ایک دن تم بھی ستارہ بن کے چمکو
سو نظروں میں خیالِ کہکشاں رکھا ہوا ہے
زمیں لیتی ہے اس سے رہنمائی بھی یہاں پر
زمیں کے سر پہ وہ جو آ سماں رکھا ہوا ہے
نہ جانے کون ہے وہ بھاگ والا اس جہاں میں
یہ جس کے واسطے سارا جہاں رکھا ہوا ہے
کہاں ہم کو میسر ہیں ہمارے گھر کی خوشیاں
ہمارے نام تو بس اک مکاں رکھا ہوا ہے
ملن کی اب کوئی کیسے میسر ہو سہولت
سفر کو جبکہ تم نے درمیاں رکھا ہوا ہے
چلو افروز اب رخصت تعلق ہو گیا ہے
تعلق اب برائے داستاں رکھا ہوا ہے