سلسلہ اَوّل سے آخر ایک ہی آواز کا
انتہا کا کیا رہا جھگڑا یا پھر آغاز کا
جاں بلب ہوں میں تمہارے ہاتھ میں شمشیر ہے
سامنا مضراب سے ہے زندگی کے ساز کا
نور ہی زلفِ درازِ روزنِ زندانِ ذات
نور ہی بندِ قبائے جاں زمانہ ساز کا
زیب ہے بے باکیوں کو معاف کر دینا تجھے
ہے تماشا مہرِ تاباں تیری چشمِ باز کا
کاسۂ جاں منتظر اے سجدہ گاہِ کربلا!
قامتِ تلوارِ جاناں کی نیازِ ناز کا