کبھی کبھی میں سوچتا ہوں ہر راستے کا اختتام دور آسمانوں پر کہیں ہوتا ہے ۔ چاہے وہ راستہ میرے ڈیرے سے نکلتی کوئی کچی پگڈنڈی ہو، کچا پکا سولنگ ہو یا نئے زمانے کا پتا بتاتا ، بڑی سڑک کو جاتا پکا رستہ ہو ۔ یا پھر وہ راستہ جو پنجاب کے میدانوں سے ہوتا ہوا دور پہاڑوں تک جاتا ہو ، یا صحرائے سینا کے سینے پر مونگ دلتا ریت سے اٹا راستہ ہو ۔ یہ سب رستے ایک ہی مقام پر دور آسمانوں میں اختتام پذیر ہوتے ہیں ۔
ہم ساری زندگی ان راستوں پر دوڑتے دوڑتے آخر منزل کے قریب پہنچ کر ، وقت کی قید سے نکل جاتے ہیں اور ہماری روح ہمارے جسم سے پہلے ہی پرواز کرتی اس منزل پر پہنچ جاتی ہے ۔ جہاں ہمارے پیچھے رہ جانے والے جسد کو اس آخری دن ہمارے مرقدوں سے نکال کر پہنچا دیا جائے گا ۔
اس رستے کے اختتام پر سنا ہے دو گھر ہیں ۔ میرے جیسے راستے سے ہٹے ہوئے بھولے بھٹکے مسافر ، جو ساری زندگی راستے کی یا یوں کہ لیں اصل راستے کے سراب کے پیچھے دوڑتے دوڑتے اس منزل پر پہنچ گئے ۔
وہاں جا کر پتا چلا کہ منزل کے نشاں اور تھے ، قدموں کا گماں اور تھا ۔ اپنی منزل پر پہنچ کر ، خالی ہاتھ تو پہلے ہی کردیے گئے ہوتے ، اجنبی قرار دیے جاتے ۔
پھر تو بس ہم ، انجانے شہر میں ہماری آخری منزل اور کسی مہرباں کی آس ۔
اور مجھے یقیں ہے وہ مہرباں شہر کے دروازوں پر ہم بے سہاروں کا انتظار کرتا ہوگا ۔
میں جانتا ہوں ، میں راستے سے بھٹکا ہوا ، میری منزل بہت دور ، پر وہاں وہ اجنبی جو مجھے بہت چاہتا ہے ، انتظار کرتا ہوگا ۔