میں بنیادی طور پہ دیسی ماحول کی پیداوار ہوں۔ اور میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ دیسی ماحول میں لوگ اقدارات کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ کیونکہ ان میں مروت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ میری والدہ نہایت سادہ مزاج خاتون ہیں مگر اپنی زندگی کے نشیب و فراز سے مجھے آگاہ کرتی رہتی ہیں تا کہ میں اپنی زندگی میں حالات کے مطابق ڈھلنے کی کوئی ترتیب لگا لوں۔ جو واقعہ بیان کرنے جا رہی یہ الگ الگ والد صاحب اور والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا تھا۔
کم و بیش چونتیس سال پہلے کی بات ہے۔ والد صاحب اپنے گاؤں سے دور دوسرے گاؤں میں ٹیچر تھے۔ وہاں کے جو زمیندار یا وڈیرے کہہ لیں وہ کافی متکبر طبیعت کے مالک تھے۔ اور اس غرور کی وجہ سے وہ کسی سے متاثر نہیں ہوتے تھے ۔ ان کو ہر لحاظ سے اپنے طور اطوار پسند تھے۔
معاملہ کچھ یوں ہوا کہ سردیوں کے دن تھے اور والد صاحب کسی کام کے سلسلہ میں لاہور گئے تھے۔ جہاں انہوں نے رکنا تھا۔ رات گیارہ کا وقت تھا اور دروازے پہ دستک ہوئی۔ والدہ کے پوچھنے پہ انہوں نے اپنا بتایا اور والد صاحب کا دریافت کیا کہ یہ ملک سیف اللہ صاحب کا گھر ہے؟والدہ نے اثبات میں جواب دے کر بتایا کہ وہ گھر پہ نہیں۔ انہوں نے پوچھا گھر کوئی اور مرد ہے تو والدہ نے بتایا کہ سسر ہیں مگر ضعیف ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گاؤں ابھی دور ہے اور دھند کی وجہ سے مزید سفر ممکن نہیں۔ ہم نے بس رات گزارنی اور فجر ٹائم چلے جائیں گے۔ وہ تین افراد تھے۔ چنانچہ ان کےلئے بیٹھک کھول دی گئی۔ والدہ نے فوراً پیٹی کھول کے نئے اور گرم بستر اندر بھیجے اور ان سے پوچھے بنا دیسی انڈے ابال کے گرم دودھ کے ساتھ بھجوائے۔
اس دور میں کم از کم ہمارے علاقے میں سوئی گیس کا تصور بھی نہیں تھا اور لکڑیاں جلا کر استعمال کی جاتی تھیں۔
ان کے بہت انکار کے باوجود ان کو گرم دودھ اور انڈے پیش کئے گئے۔ ان کا ارادہ فجر ٹائم واپسی کا تھا۔ چنانچہ والدہ تہجد کے وقت ہی اٹھ گئیں اور تازہ چائے اور پراٹھوں کا اہتمام کرنے لگ گئیں۔ فجر کی اذان ا گیا ختم ہوئی تھی اور دروازے پہ دستک ہوئی کہ ہم جانے لگے ہیں دروازہ بند کر لیں۔ والدہ نے کہا آپ ایسے نہیں جا سکتے کھانا تیار ہے۔
یہ سن کر ان کی حیرانی کی کوئی حد نہ رہی کہ اس موسم میں اتنی صبح یہ سب کیسے ممکن ہے۔ خیر دادا جان نے ان کو کھانا پیش کیا اور وہ کھا کر چلے گئے۔ دو تین دن بعد والد صاحب ڈیوٹی پہ گئے تو گاؤں کے لوگ بھی ملنے آئے اور ایک آدمی نے کہا کہ آپ کو رائے صاحب نے اپنے ڈیرے پہ بلایا ہے۔ والد صاحب چلے گئے۔ وہ اٹھ کر میرے والد صاحب کو ملے اور اپنے ساتھ بٹھایا۔ اور کہا۔۔۔۔۔بھئی گھر ہے تو تمہارا گھر ہے۔ اتنی مہمان نوازی۔۔۔۔اتنا رکھ رکھاؤ۔ وہ بے حد خوش تھے۔ وہاں اور لوگ بھی موجود تھے۔ ان کے پوچھنے پہ واقعہ ان کو بتایا ۔
وہ اکثر اپنے ڈیرے پہ اس واقعہ کا ذکر کرتے تھے۔ ساری بات بتاکر والد صاحب نے کہا بیٹی! خاوند کو ڈیرے دار اس کی بیوی بناتی ہے۔
اگر وہ ذاتی رنجشوں کو بالائے طاق رکھ کر ایسے چھوٹے چھوٹے معاملات میں خیر کے معاملے کو اپناتی رہے گی تو اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی شاملِ حال رہے گی۔