ایک گھر کا وہ در نہیں آیا
جھک سکے جس جا سر، نہیں آیا
جانے کیا سوچ کر نہیں آیا
”دل ابھی راہ پر نہیں آیا“
یوں تو ہم کو ملے ہزاروں لوگ
جس کو آنا تھا پر نہیں آیا
وہ بھی کیسا حسین ہے دیکھو
دیکھ کر دل میں شر نہیں آیا
دل تھا سہما ہوا مگر اب تو
جو گیا دل سے ڈر نہیں آیا
وہ ملا ہے جو اجنبی بن کر
پوری خواہش تو کر نہیں آیا؟
سادگی ہی ردا کا زیور ہے
راہ میں اس کی زر نہیں آیا