حسیں حادثہ رونما ہو رہا ہے
کوئی مجھ سا میرے سوا ہو رہا ہے
زمانے سے اب وہ جدا ہو رہا ہے
کسی کا اگر قد بڑا ہو رہا ہے
سنا ہے اسے فائدہ ہو رہا ہے
”مری قید سے وہ رہا ہو رہا ہے“
تو کیا تلخ لہجے میں بولوں کسی سے
وہ ناحق ہی مجھ سے خفا ہو رہا ہے
ستاروں کے جھرمٹ سے وہ جھانکتا ہے
جو میری دعا کی جزا ہو رہا ہے
وہ لوٹے ہیں دن جو سہانے یہاں پر
مرا قرض کوئی ادا ہو رہا ہے
جو گزرے تھے دو پل خوشی کے ترے سنگ
وہ ہر ایک لمحہ سزا ہو رہا ہے
ردا کیسے آئے یقیں میرے دل کو
پرایا تھا جو اب مرا ہو رہا ہے