نظر نظر کے زاویے کہیں سے کچھ کہیں سے کچھ
الگ الگ ہیں راستے کہیں سے کچھ کہیں سے کچھ
دکھا تھا ایک واقعہ کسی کو کیا کسی کو کیا
سنے ہیں ہم نے واقعے کہیں سے کچھ کہیں کچھ
یہ کس ڈگر پہ میری راہ راستوں نے روک لی
کھلے ہیں آ کے سامنے کہیں سے کچھ کہیں کچھ
چلے تھے پھول بانٹے یہاں پہ بھی وہاں پہ بھی
سو ہم نے تیر کھا لیے کہیں سے کچھ کہیں سے کچھ
یہ سانحہ ہوا ہے یوں کہ ایک ہی مقام پر
ملے تھے آ کے حادثے کہیں سے کچھ کہیں کچھ
جو بھر گئے پرانے زخم یار مل گئے نئے
سفر میں ساتھ آ گئے کہیں سے کچھ کہیں کچھ
حرم، مزار، خانقاہ، سڑک، دکان، مے کدہ
تجھے ملے مرے پتے کہیں سے کچھ کہیں سے کچھ
میں جس کو پوجتا رہا خدا تھے اس کے بے شمار
ہوئے ہزار فیصلے کہیں پہ کچھ کہیں کچھ
مری ان آستیں کے سانپ تھے مرے ہی ہاتھ دو
یوں پھر مزید آ گئے کہیں سے کچھ کہیں سے کچھ