مطافِ شوق رہا صرف آستانۂ عشق
دوانے عشق کے پڑھتے رہے دوگانۂ عشق
تمہارے ساتھ میں صحرا نورد بن جاتے
سمیٹ لیتے کبھی عشق میں خزانۂ عشق
یہ اور بات بہت زور عمر بھر مارا
کھلا نہ عقل سے پھر بھی کبھی دہانۂ عشق
یہ بات سچ ہے کہ ہے غرق خود کلامی میں
مگر شعور سے عاری نہیں دوانۂ عشق
جڑیں یقین کی گر ہوں ذرا بھی شک آلود
لرزتا کانپتا رہتا ہے آشیانۂ عشق
مرے بزرگ ہی اس باب کے مصنف ہیں
پڑھایا جاتا ہے جس باب میں ترانۂ عشق
یہ عشق عشق ہے اس کی غذا نہیں آساں
فقط دلوں کی محبت ہے آب و دانۂ عشق
کوئی تو ہو جو ہمیں بھی کرے نشہ آور
ہمارے دل میں ہے خالی ابھی بھی خانۂ عشق
تمام عمر ہوس کے وہی غلام رہے
تمام عمر جو پڑھتے رہے فسانۂ عشق
ہمارا عہد ہے گرچہ ہوس کا پروردہ
ہمارے عہد کو لکھا گیا زمانۂ عشق
لہو جگر کا پلایا ہر ایک مصرعے کو
غزل کی شاخ پہ آخر پھلا فسانۂ عشق
ہوس کی آندھیاں آئیں چلی گئیں آخر
کھڑا ہوا ہے مگر پھر بھی شامیانۂ عشق