جسے بھی دیکھو وہی بے عمل پڑا ہوا ہے
ہماری سوچ میں کوئی خلل پڑا ہوا ہے
نواب لوگوں کو محلوں میں بھی قرار کہاں
فقیر راہ میں منگل کُشَل پڑا ہوا ہے
تم اپنے آپ میں ہو قید اک زمانےسے
اِدھر تو دیکھو یہ مشکل کا حل پڑا ہوا ہے
ہماری سوچ کا پتھر ہلا مگر سچ ہے
جگہ پہ اپنی وہیں لم اٹل پڑا ہوا ہے
یہ دل کا روگ ہے اس کی طرف نہ آگ کرو
اسے نہ چھیڑو ابھی گھر میں شل پڑا ہوا ہے
وہی پلٹتے ہوئے تم نے جس کو پھینکا تھا
ہماری چشم میں وہ ایک پَل پڑا ہوا ہے
ہمیں منانے کی فرصت نہیں اور اوپر سے
مزاجِ یار کے ماتھے پہ بَل پڑا ہوا ہے
وہ میرے بازو کو تکیہ بنا کے سوئے ہیں
خوشا وہ ہاتھ جو زیرِ غزل پڑا ہوا ہے
تمام شعر ہی کاڑھے گئے ہیں تکیے پر
جسے کہا گیا بیت الغزل پڑا ہوا ہے
غموں کے ریلے سے ہر شخص چور چور ملا
سبھی کے پیچھے وہی ایک دَل پڑا ہوا ہے
ہماری آنکھوں پہ پھونکا ہے ماں نے بچپن میں
ہماری آنکھوں میں زمزم کا جَل پڑا ہوا ہے
خدا کے واسطے الجھیں نہ مجھ سے دور رہیں
مرے مزاج میں ردّ عمل پڑا ہوا ہے