آرٹ بُچوالڈ
مشہور امریکی مزاحیہ کالم نگار (Art Buchwald) 1925 ءمیں نیویارک میں پیدا ہوئے۔ 40 سال تک کالم نگاری سے وابستہ رہے۔ 33 کتابیں تصنیف کیں۔ ان کا پہلا کالم 1949ءمیں اس وقت شائع ہوا جب وہ پیرس میں رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے امریکا واپس آنے کے بعد ہزاروں کالم لکھے۔ خاص طور پر امریکا کے اعلیٰ طبقے کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا۔ ”آرٹ بکوالڈ“ نے واشنگٹن کی زندگی اور وہاں کے حالات کے بارے میں اتنی خوبصورتی سے لکھا کہ لاکھوں پڑھنے والےان کے مداح بن گئے۔ ان کا نام سیاسی طنز کے مترادف سمجھا جانے لگا۔ ”آرٹ بکوالڈ“ نے اپنا عروج 1970ءکی دہائی کے آغاز میں دیکھا جب ان کے کالم 500 سے زائد امریکی اور غیرملکی اخبارات میں بیک وقت شائع ہوتے تھے۔ ان کا یہ جملہ بہت زیادہ مشہور ہوا: ”اگر آپ کسی انتظامیہ کو طویل عرصہ تک نشانہ بنائے رکھیں تو وہ آپ کو اپنا رکن منتخب کر لے گی۔“
”آرٹ بکوالڈ“کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ لکھنے سے پہلے متعلقہ موضوع کا تفصیل اور باریک بینی سے مطالعہ کرتے تھے۔ اس موضوع پر لکھی گئی تمام تحریروں کو پڑھنے کے بعد ہر اعتبار سے جائزہ لیتے، جانچتے، پرکھتے تھے۔ پھر رات کے آخری حصے میں وہ ساری تحریریں اپنی ٹیبل پر اِدھر اُدھر پھیلادیتے تھے۔ ایک صفحہ لے کر پہلے ایک خاکہ ساتیار کرتے۔ پھر کمرہ بند کرکے لکھنے کا آغاز کرتے۔ اس وقت تک لکھتے رہتے جب تک تحریر مکمل نہیں ہوجاتی تھی۔
***
الیگزنڈر ڈوما
مشہور ادیب ”الیگزینڈر ڈیوما“ (Alexandre Dumas) لکھتے وقت پھول دار جُبّہ اور چوغا پہنتے، سر کے اوپر ایک لمبوتری ٹوپی رکھتے اور دو زانو ہوکر پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ لکھتے تھے۔ وہ خود ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ میرے آدھے خیالات میرے اس لباس اور ٹوپی میں ہوتے ہیں۔
***
کومپٹن میکنزی
”کومپٹن میکنزی“ (Compton Mackenzie) برطانیہ کے مشہور رائٹر اور ادیب گزرے ہیں۔ ان کے لکھنے لکھانے کا طریقۂ کار یہ تھا کہ یہ وہ لکھنے سے پہلے کلاسیکی موسیقی کی دھنیں سنا کرتے تھے۔ ان کا اس بارے میں کہنا تھا اس سے میرے خیالات کو توانائی ملتی ہے۔ میرے منتشر خیالات ایک نقطے پر جمع ہوجاتے ہیں۔ اور پھر آسانی کے ساتھ لکھ سکا ہوں۔
***
ایڈگرایلن پو
امریکی شاعر اور کہانی کار ایڈگر ایلن پو1809 (Edgar Allan Poe) ءمیں پیدا ہوئے اور 1849ءمیں وفات پائی۔ ”ایڈگر ایلن پو“ تھا۔ اسے جرم و سزا اور جاسوسی کہانیوں کی صنف کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔ سائنس فکشن میں پہل کرنے کا اعزاز بھی اسی کے نام ہے۔ ”ٹل ٹیل ہارٹ“ کے عنوان سے اس نے ایک کہانی 1843ءمیں لکھی تھی جو ایک نیم دیوانے شخص کی خود کلامی پر مبنی ہے۔ یہ شخص بار بار خود کو اور اپنے مخاطب کو یقین دلاتا ہے کہ میں پاگل نہیں ہوں، لیکن ساتھ ساتھ وہ ایک قصّہ بھی بیان کرتا ہے کہ کیسے اس نے ایک آدمی کو رات کے اندھیرے میں موت کے گھاٹ اتارا تھا؟ مقتول کی آنکھیں گِدھ جیسی گدلی اور پژمردہ تھیں اور وہ قاتل کو گھورتی رہتی تھیں۔
ایک رات قاتل نے، جوکہ اس کہانی کا راوی بھی ہے، اس گدلی آنکھوں والے شخص کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اِس عمل کے بعد وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔
امریکی مصنّف اور شاعر ”ایڈگر ایلن پو“ ڈرامانی کہانیاں لکھنے کے ماہر تھے۔ ”ایڈگر ایلن پو“ خود بھی ایک داستانی کردار تھا اور محققین نے اب تک دیگر لوگوں کی لکھی ہوئی 60 کے قریب ایسی کہانیوں، ناولوں اور فلموں کا سراغ لگایا ہے جن میں ”پو“ ایک کردار کے طور پر موجود ہے۔ ”ایڈ گرایلن پو“ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ ان کی تحریریں پڑھی جاتی ہیں۔ ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ لکھتے وقت اپنے کندھے پر اپنی پالتو بلی بٹھالیا کرتے تھے۔ اس کے بعد منہمک ہوکر اور ڈوب کر لکھا کرتے تھے۔
***
بالزیک
فرانسیسی ادیب ”بالزیک“ (Balzac) کی سوانح میں لکھا ہے کہ وہ آدھی رات کے بعد لکھا کرتے تھے۔ لکھنے کے دوران چائے اور کافی بہت ہی زیادہ پیتے تھے۔ ایک دفعہ اس سوال کہ ”آپ اتنی چائے اور کافی کیوں استعمال کرتے ہیں؟“ کے جواب میں کہا تھا: ”میں کافی اور چائے کی 10 ہزار پیالیاں اور مگ پی کر اس دنیا سے جاﺅں گا۔“ اس کے بغیر میں لکھ نہیں سکتا۔
***
ارنسٹ ہیمنگوے
ارنیسٹ ہیمنگوے (Ernest Hemingway) کہتے ہیں: ”میں ہر صبح لکھتا ہوں۔ جب مجھے کسی کتاب یا کہانی پر کام کرنا ہوتا ہے تو میں پوپھوٹتے ہی کام شروع کر دیتا ہوں۔ یہ ایسا وقت ہے جس میں کوئی بھی آپ کے کام میں خلل انداز نہیں ہوتا۔ اس طرح میں بہت سہولت سے آپ اپنا کام کرلیتا ہوں۔ اپنالکھا ہوا دوبارہ پڑھیے۔ یہ آپ کی تحریر میں نکھار لانے کا سبب بنے گا۔
***