عشقیؔ صاحب لکھنا ہے تو کوئی نئی تحریر لکھو
اب تک تم نے خواب لکھے اب خوابوں کی تعبیر لکھو
اس الجھن کو سلجھانے کی کون سی ہے تدبیر لکھو
عشق اگر ہے جرم تو مجرم رانجھا ہے یا ہیر لکھو
جہاں بھی قصر شیریں دیکھو خسروؔ کی جاگیر لکھو
کوہ جہاں حائل ہوا اس پر خوں سے جوئے شیر لکھو
دشت سے آزادی کی ہوائیں ان کو بلانے آتی ہیں
اہل جنوں کو روکنے والی کون سی ہے زنجیر لکھو
شہر سخن کے عزت دارو کچھ تو کسی کا پاس کرو
کوئی تو ہوگا جس کو آخر تم صاحب توقیر لکھو
ہم وطنوں کے درد کا درماں ایسا کچھ دشوار نہیں
نام وطن ہے اسم اعظم خاک وطن اکسیر لکھو
اپنی کمندیں پھینک کے جس کو قید کیا ہے ظلمت نے
وہ سورج کب ابھرے گا کب پھیلے گی تنویر لکھو
اپنے عہد کی سفاکی پر یہ خاموشی طنز نہیں
کوئی تو ہوگا اس کا سبب کیوں بیٹھے ہو دلگیر لکھو
جب تک سر سے خوں نہ بہے گا کوہ کنی ہے خام خیال
تیشے کو خلاق کہو یا پتھر کو تصویر لکھو
ڈھا دے جو انسان کے دل میں رنگ و نسل کی دیواریں
کوئی تو دستور محبت ایسا عالم گیر لکھو
ہر ہر دور کے لکھنے والے حاشیے اس کے لکھتے ہیں
اپنے عہد میں نسخۂ دل کی تم بھی کوئی تفسیر لکھو
حرف کی طاقت بے پایاں ہے حرف کے ہیں امکان بہت
حرف کو زندہ کرنا سیکھو پھر چاہے تقدیر لکھو
دل پر جس کے نقش نہ ابھریں وہ کیا ابرو کیسی نظر
کتنا ہی تم تیر نظر کو ابرو کو شمشیر لکھو
روشن کیسے ہوگا سواد حرف جو خون دل نہ جلا
چربہ تم غالبؔ کا اتارو چاہے برنگ میرؔ لکھو
اپنے دکھڑے لکھ لکھ کر دیوان تو تم نے جمع کیا
دل کو جو بدلے اب کوئی ایسا شعر پر تاثیر لکھو