بچپن ہی سے ہمارے کمتر خیال میں اس خیال کو دبائے بیٹھے تھے کہ عزت غیرت اور انا کا احساس صرف آفیس چمبر میں آرام کی نیند کر نے والے آفسر اعلیٰ میں ہوتا ہے یارام راجیہ کا خواب دکھا کر سرکاری خزانوں پر کنڈلی مار کر بیٹھے ہوئے ناگ سانپوں میںلیکن ہماری اس غلط فہمی پر پانی اس دن پھیر گیا جس دن ہمارا سابقہ ایک ہٹے کٹے مرشد نما فقیر سے پڑا ۔ہوا یوں کہ ہم حسب معمول دن کے دس بجے بستر سے بری ہوکر چہرے پر اگے ببول کے کانٹوں کی صفائی مطلب شیونگ کرنا ہی چاہتے تھے کہ ہمارے کانوں کے نازک پردوں سے ایک گرجدار آواز ٹکرائی ’’ مانگنے والا مانگ رہا ہے دینے والا کیا سوگیا ہے ‘‘ ہم گھبرا کر دروازہ کھولا تو پیپل کے پیڑ جیسی جسامت والی شخصیت ہمارے سامنے تھی گھنی کالی زلفیں، آنکھوں میں سرما، گلے میں موٹے منکوں کا ہار، بدن پر سبز رنگ کا جبہ ،گلے میں زعفرانی رنگ کا رومال ،انگلیوں میں نیلم کنکر سے مزین انگوٹھیاں ایک ہا تھ میں مورچل کٹہ دوسرے ہاتھ میں کشکول فقیر پر نظر پڑتے ہی چند لمحوں کے لئے ہمارے ذہن میں یہ خیال لپکا کاش ہماری صحت بھی اس فقیر جیسی ہوتی کیونکہ وہ پہاڑ تھا اور ہم اسکے سامنے کاڑی ، خیر ہم دس روپیے کی نوٹ نکال کر اسکے کشکول میں ڈالنے ہی والے تھے کہ فقیر دس روپے کی نوٹ کو حقار ت کی نظر سے دیکھتے ہوئے بولا ’’صاحب آپ کو دس روپے کی نوٹ خیرات کرتے ہوئے شرم نہیں آتی آپ کس دور میں جی رہے ہیں یہ دور اندرا گاندھی کا نہیں نریندر مودی جی کا ہے وہ برے دن تھے یہ اچھے دن ہیں اور پھر آپ لوگوں نے ہم فقراء کو سمجھ کیا رکھا ہے ہم لوگوں کی بھی عزت ہے خیرات دینے اور لینے کے بھی تو کچھ اصول ہیں اگر آ پ کو خیرات کرنا ہی ہے تو کم از کم بیس روپیئے کی نوٹ دے دو ورنہ میں چلا۔ ٖؑوپے کا کڑک نوٹ دے دو ورنہ میں چلا ۔ اور بھی بہت سے مکانات پر آواز لگانی ہے تمہارے جیسے کنجوس مکھی چوس لگوں کے منھ لگنا وقت کی بربادی ہے۔ہم صبح صبح خیرات کے لئے آنے والوں کو خالی ہاتھ لوٹانے کے قائل نہیں لہٰذا دل بڑا کر کے پچاس کا نوٹ فقیر کے کشکول میں ڈال دیا فقیر مائی باپ اس نوٹ کے بدلے ایسی زبردست دعا دوں گا کہ تمہاری بیوی کا گلا طلائی زیورات سے بھر جائے تو تمہارا گھر بچوں سے بھر جا ئے گا ہم دل ہی دل میں ہنس پڑے دو بچوں کے بعد ہماری بیوی کا فیملی پلاننگ آپریشن ہو چکا ہے رہا سوال بیوی کا گلا طلائی زیورات سے بھر جانے کا ہماری بیوی کے گلے میں جو طلائی زیورات تھے انہیں ہم ایک ایک کر کے فروخت کر چکے ہیں بھا اب کہاں اس کا گلا زیورات سے بھر نے والا ہے اس واقعہ سے ہماری اندر کی آنکھیں کھول دیں (ورنہ ہماری باہر کی آنکھیں ہی کھلی رہتی تھیں اس لئے ہمارے دوست و احباب ہمیں عقل کا اندھا کہا کر تے ہیں) ہم صبح صبح خیرات کے لئے آنے والوں کو خالی ہاتھ لوٹانے کے قائل نہیں لہٰذا دل کڑا کر کے پچاس روپے کی نوٹ فقیر کے کشکول میں ڈال دیا فقیر بولا میں باپ اس نوٹ کے بدلے ایسی زبردست دُعا دوں گا کہ تمہاری بیوی کا گلا طلائی زیورات سے بھر جائیگا تو تمہار گھر بچوں سے گویا آئندہ خیرات کے معاملے میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا تھا چند روز بعد ایک صبح جب ہماری آنکھ کھلی تو ہم بستر پر بیٹھے بیٹھے ہی بیوی کو چائے لا نے کے لئے آواز لگانے ہی والے تھے کہ ہمارے کانوں کے پردوں سے ایک رس گھولتی ہوئی آواز ٹکرائی آواز میں کچھ ایسی کھنک تھی کہ ہمارے اندر برسوں سے گہری نیند میں پڑے ہوئے جل ترنگ کے تار اچانک جاگ کر بجنے لگے دوڑتے ہوئے مکان کے باہر آئے تو دیکھا ہمارے سامنے بھکا رن کی شکل میں ایک قیامت با نفس نفیس استادہ ہے ۔ کسی قدر شرمیلی ہلکے زرد رنگ کی ساڑی میں ملبوس بھکارن کا سفید گدریا بدن ابل ابل کر اپنے وجود کا ثبوت دے رہا تھا بھکارن کی عمر شاید تیس چالیس برس کے درمیان ہوگی اسکا خوبصورت پرکشش چہرہ کسی سپرہٹ فلم کی آئٹم گرل کی طرح جاذب نظر تھا اس سے قبل کہ بھکارن کے سراپے پر ٹکی ہوئی ہماری نظروں کو ہماری بیوی تاڑلیتی ہم نے فوراً بیس روپے کا نوٹ نکال کر بھکارن کے ہا تھ میں رکھنے ہی والے تھے کہ وہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولی صاحب خیرات کرنا ہی چاہتے ہوتو پچاس روپے کا نوٹ دے دو بیس روپے سے کیا ہو نے والا ہے میرے دوبچے اور ایک شرابی شوہر ہے بیس بیس روپے جمع کر تی پھروں گی تو میرے بچوں کی اسکول کی فیس میرے تعلیم یافتہ بے روزگار شوہر کے دارو کا خرچ کیسے پورا ہوگا ؟ ہم نے قدرے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کچھ دن قبل ایک فقیر نے بیس روپے خیرات میں طلب کئے تھے اور آج تم پچاس روپے خیرات مانگ رہی ہو تم فقراء برادری کا ارادہ خیرات مانگنے کا ہے یا لوگوں کو کنگال بنانے کا ۔ بھکارن کی سحر انگیز آنکھوں کی نیلی پتلیاں چند لمحے تیزی کے ساتھ حرکت کرتی رہیں جب پتلیوں کا رقص تھم گیا تو بولی صاحب ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ضرورت ہے حقائق کو جاننے کی ، بات بات پر غصہ صحت کے لئے مفید نہیں ہوتا ہم بھکارن کی شاعرانہ اور فلسفیانہ گفتگو سن کر دنگ رہ گئے پوچھا محترمہ حقائق کیا ہیں وہ تو ہم بعد میں معلوم کر یں گے پہلے یہ تو بتائو اتنی شائستہ گفتگو کہاں سے سیکھی ہے بھکارن کا سرخ چہرہ دمک اٹھا بولی میرے والد اردو فارسی کے عالم تھے سرکاری ملازمت نہیں ملی تو ایک تیل کے کارخانے میں منشی گری کرنے لگے خسارے کی وجہہ سے کا رخانے پر تالا لگ گیا تو انہوں نے اپنا خاندانی پیشہ گداگری کو دوبارہ اپنایا خیرات مانگنے اور خیرات دینے والوں سے گفتگو کرنے کی تربیت انہی سے ملی ہے ہم نے ٹھنڈی آہ بھر کر پوچھا اب تو بتاو حقائق کیا ہیں جن کا ہمیں علم نہیں؟ بھکارن بولی بات دراصل یہ ہے کہ چپراسی سے لیکر آفسر اعلیٰ تک مزدوروں سے لے کر انجینئر س تک ہر ایک کی تنخواہوں میں ہندو توالہر کی طرح زبردست اضافہ ہو رہا ہے اٹو رکشا سے لے کر سرکاری بسوں کے کراے آسمان کو چھو رہے ہیں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضا فے سے ترکاری مارکیٹ میں بھی اچھال آگیا ہے بکری کا گوشت سونے کے بھائو میں بک رہا ہے جب اتنا کچھ اتھل پتھل ہو رہا ہے تو ہم فقراء کی خیرات میں اضافہ کیوں نہیں؟ بھکارن کی گفتگو جاری تھی کہ اس کا موبائل فون کا رنگ ٹون بج اٹھا ’’پنچھی ہوتی تو اڑ آتی رہے‘‘ بھکارن نے موبائل کان کو لگایا تو ادھر سے ایک تیز اور طرار آواز آئی ’’دیدی کہاں ہو بھکارن بولی مرزا محلہ تیسری گلی کے پانچویں مکان کے سامنے ادھرسے آواز آئی میں اسی محلے کی دسویں گلی میں ہوں اس گلی کے لوگ خیرات دینا تو دور کی بات ہے دروازہ کھولنے کو بھی تیار نہیں ‘‘ بھکارن بولی ’’اس گلی میں دال گلنے والی نہیں ہے وہاں کے لو گ پہنچے ہوئے کھڑوس ہیں آئندہ اس گلی میں قدم بھی نہیں رکھنا ‘‘ اس کے بعد دونوں کا رابطہ منقطع ہو گیا بھکارن کی باتیں سن کر ایک لمحہ کے لئے ہم نے سوچا اس خاتون کو بھکارن ہو نے کے بجائے حزب مخالف جماعت کی لیڈر ہو نا چاہیے تھا ہمارا غصہ برف کی طرح پگھل گیا ہم بھیگے پاپڑ کی طرح نرم پڑ کر بولے ’’ تمہیں تو وزیر برائے فلاح و بہبود ہونا چاہیے تھا ‘‘ بھکارن قدرے شرماتے ہوئے بولی یہ سماجی فلاح و بہبودی کیا ہوتی ہے اس کا تو مجھے علم نہیں البتہ میں علامہ کاروباری کی قائم کر دہ ’’انجمن برائے فقراء ‘‘کی جوائنٹ سکریٹری ہوں ہماری انجمن کی شاخیں پوری ریاست میں پھیلی ہوئی ہیں انجمن کا صدر دفتر شہر شعلہ نگر میں ہے ہر ماہ دو ماہ میں ایک بار انجمن کی میٹنگیں بھی ہوتی ہیں ۔ہم نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے سوال کیا اگر فقراء کی انجمن ہے تو اس کے شرائط اور مطالبات بھی ہوں گے ؟ بھکارن بولی ’’ہاں صاحب ہماری انجمن کے شرائط اور مطالبات بھی ہیں یہ کہتے ہوئے چولی کے پیچھے سے ایک مطبوعہ کاغذ نکال کر ہمارے ہا تھ میں تھما دیا اس سے قبل کے ہماری بیوی کی نظر بھکارن پر پڑتی ۔۔۔۔ہم نے سو روپے کا کڑک نوٹ بھکارن کے ہا تھ میں رکھ دیا نوٹ چولی کے پیچھے ٹھونس کر وہ ایک ادائے مستانہ کی چال چلتی ہوئی یہ جاوہ جا ۔ ہم مکان میں داخل ہو کر آرام کرسی میں دھنس کر شرائط اور مطالبات کا مطالعہ کرنے لگے۔
شرائط:۔
۱) انجمن برائے فقراء ریاستی سطح کی انجمن ہے ریاست پاگل پردیش میں رہنے والے ہر بھکاری اور بھکارن کو ہماری انجمن میں نام رجسٹرڈ کرانا ضروری ہے غیر رجسٹرڈ بھکا ریوں کا خیرات مانگنا غیر قانونی ہے اور غیر اخلاقی ہے انکے خلاف عدالتی کا روائی بھی ہو سکتی ہے ۔
۲) تمام بھکاریوں کو ہر ماہ ملنے والی خیرات کا ایک چوتھائی حصہ انجمن کے دفتر میں جمع کرنا ضروری ہے۔
۳) ہر فقیر کا فرض ہے کہ اگر خیر ات میں اناج لے رہا ہے تو کم از کم آدھا کلو یا ایک کلو چاول یا ایک کلو گہوں قبول کرے ۔
۴) خیرات اگر زر کی شکل میں مل رہی ہے تو فقراء کے لئے ضروری ہے کہ وہ کم از کم بیس روپے کا نوٹ قبول کرے زیا دہ سے زیا دہ کوئی قید نہیں اگر کوئی دس ہزار کا نوٹ بھی دے رہا ہے تو بخوبی قبول کر یں مگر اس بات کا خیال رکھیں کرنسی نوٹ پھٹی پرانی ہونی چاہیے اور نہ کھوٹی (جعلی) ۔۔۔کرنسی نوٹ نئے اور رائج الوقت ہوں ۔
۵) خیرات میں پھٹے پرانے کپڑے بکری اور گائے بیل کا چرم قبول نہ کریں ان چیزوں کے مستحق عربی مدارس کا انتظامیہ ہے۔
۶) اگر کوئی شخص فاتحہ نیاز چہلم روزہ افطاری وغیرہ کے لئے فقراء کو مکان پر مدعو کرنا چاہتا ہے تو اسے انجمن کے صدر علامہ کاروباری سے طے شد ہ فیس ادا کر کے اجازت لینی ہو گی ۔
۷) اگر کوئی شخص خیرات دینے میں ٹال مٹول کر تا ہے یا جھڑکیاں دیتا ہے تو اس شخص سے الجھنے کے بجائے اسکی شکایت علامہ کاروباری سے کریں علامہ اس شخص کے خلاف ایسی خطرناک کاروائی کریں گے کہ وہ شخص فقراء کے مکان تک پہنچ کر خیرات دینے پر مجبور ہو جائے گا ۔
مطالبات:۔ انجمن برائے فقراء حکومت ہند سے مندرجہ ذیل مطالبات کر تی ہے۔
فقراء میں اکثر یت معذور افراد کی ہے حکومت کا فرض ہے کہ وہ اندھوں کو آنکھ ، لنگڑوں کو ٹانگ ہاتھ کٹوں کو ہاتھ ، ناک کٹوں کو ناک فراہم کرنے کے لئے پلاسٹک سرجری آپریشن وغیرہ کا انتظام کرے۔
۲) سرکاری ملازمتوں میں صرف معذورافراد کا کوٹا مختص ہے معذور افراد کے ساتھ ساتھ فقراء کا بھی کوٹہ مختص کر ے ۔
۳) ہماری انجمن کے تعلیم یا فتہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو سرکا ری ملازمت ملتی ہے تو انہیں سرکاری فرائض کے دوران رشوت اوپر کی آمدنی ۔۔۔کے نام پر بھیک مانگنے کی کھلی چھوٹ دی جا ئے۔
۴) ٹرین (ریل گاڑی) میں فقراء کو گا کر بجا کر ناچ کر کبھی کبھی مسافروں کو ڈرا کر بھیک مانگنے کی اجازت دی جا ئے ۔
۵) ٹرین سفر کے دوران فقراء کو اگر کوئی ٹی ٹی ٹکٹ طلب کرتا ہے یا جرمانے لگانے کی دھمکی دیتا ہے تو اسے ملازمت سے برطرف کیا جائے۔
۶) جو فقراء کا ہلی اور کمزوری کی وجہ سے گھوم پھر کر بھیک نہیں مانگ سکتے انہیں ہر ماہ بھکاری بھتہ دیا جائے۔
۷) بعض مرد و خواتین فقراء معروف شعراء کا کلام ترنم میں سنا کر بھیک مانگتے ہیں انکے ترنم اور شعری خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں حکومت کی جانب سے منعقدہ کل ہند مشاعروں میں کلا م سنانے کا موقع فراہم کیا جائے انہیں پدم شری پدم بھوشن ایوارڈ بھی دیا جا ئے ۔
قارئین کرام ! انجمن برائے فقراء کے شرائط اور مطالبات پڑھ کر ہماری پیشانی پر پتہ نہیں کیوں پسینے کی بوندیں نمودار ہوگئیں اور ہمارے لبوں سے یہ جملہ بے ساختہ نکل پڑا ، ہاے رہے آن بان اور شان فقراء کی !!!