محبت مصدر حیات ہے یہ مقصود حیات بھی ہے منزل حیات ہونے کے ساتھ ساتھ یہ طریقِ منزل بھی ہے ، محبت وہ چیز ہے جو زندگی کی ہر تلخی کو شیرینی میں بدل دے۔ مس خام کو زر بنا دے، تلچھٹ میں بادۂ صافی کے لطف کو پیدا کر دے۔ محبت غم کی دوا اور مرض کی شفا ہے۔ محبت کانٹوں کو گلاب اور سرکے کو شراب بنا سکتی ہے۔ محبت میں سولی پر چڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ میں تخت عزت پر بلند ہو گیا ہوں۔
نخل ہر چوپ کہ منبر نہ شود دار کنم
محبت کا بوجھ خوش گوار معلوم ہوتا ہے۔ محبت زندان کو گلستان بنا دیتی ہے اور نفرت گلستان کو آتش دان دکھا دیتا ہے۔ نار کو نور اور دیو کو حور میں تبدیل کر دینا محبت کا ہی کام ہے۔ محبت وہ چیز ہے کہ شیر اپنی درندگی بھول جائے اور چوہیا کی طرح دبک کر مسکین و عاجز معلوم ہو۔ محبت غصہ کو رحمت میں بدل سکتی ہے۔ جس گھر میں محبت ہو وہ روشن ہو جاتا ہے شاہ کو بندہ بنانا اور محمود کو ایاز کا غلام بنانا محبت کا ہی کرشمہ ہے۔
محبت کیوں ہوتی ہے ؟
حریم قدس میں جب ارواح کو تخلیق کیا گیا تو وہ نورانی مخلوق ایک دوسرے کے قریب تھیں اس قربت میں کوئی دنیاوی خواہش و ارادہ نہ تھا وہ فقط ایک روحانی کائنات تھے ہر قسم کی رذیل و قبیح حرکت اور ہر طرح کی نفسانی لذت سے پاک رشتوں میں جڑیں وہیں رشتے بنے قربتیں تخلیق ہوئیں اور یہ قرابت داری ایسی پختگی سے قائم ہوئی کہ پھر تخلیق کائنات کے بعد جب عدم کو وجود ملا تو اس وجود میں کہیں وہ رشتہ بھائی کی صورت تو کہیں میلوں دور بیٹھے دوست کی صورت میں سامنے آئے جہاں خیالات و ارادے پاک اور جسمانی و شہوانی لذات کا شائبہ بھی نہ تھا کیونکہ یہ تعلق تو عالم روحانیت کی تخلیق تھا اور یہی درحقیقت محبت تھی جس میں نہ مال و زر کا لالچ نہ جاہ منصب کا اور نہ ہی کسی طرح کی نفسانی خواہش کا اندیشہ فقط ایک رشتہ ایک تعلق ایک قربت اور ایک ایسا حسین احساس کہ جس کے تصور سے وجود مہکنے لگے اور باطنی سروں کے تار گنگنانے لگیں۔۔۔!!