انسان حیوانِ ناطق ہے اور مہمل نہیں بلکہ بامعنیٰ گفتگو کا سلیقہ انسان کو عطا کیا گیا ہے۔ اصنافِ گفتگو میں اشاروں کی زبان، پھر نطق کا عطا کیا جانا اور ابجد سکھایا جانا، پھر ابجد کی ترتیب اور حسنِ ترتیب کی تربیت دیا جانا یہ حضرت انسان کا ہی خاصہ ہے۔ خلّاق اعظم نے فعال لما یرید کے تحت انسان کو موزوں گفتگو کرنا بھی سکھایا اور استعارات و تشبیہات سے کام لے کر مختصر الفاظ میں اپنا مدعا بیان کرنا اور مسائل پر سے پردہ اٹھانے کا ہنر اور فن بھی عطا فرمایا۔ نثر نگاری کے ساتھ ساتھ شاعری بھی ایک طریقۂ اظہار ہے جس میں آشوبِ ذات کے مسائل کے بیان سے لے کر معاشرہ کے مسائل تک کا بیان رائج ہو چکا ہے۔حقیقی شاعری ایک وہبی صفت ہے۔ہر وہ بات جو ردھم اورلَے میں ہو اپنے اندر زیادہ اثرپذیری رکھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ عصرِ رفتہ و حاضر کی ورق گرانی بتاتی ہے کہ اقبال ، حالی، غالب، میر، سعدی اور رومی جیسے شعرانے مشرقِ وسطیٰ پراور گوئٹے،نطشے جیسے شعرا نے اہلِ مغرب پہ قابلِ ذکر اثر ڈالا ہے۔چونکہ شاعری محسوسات کی ترجمان ہوتی ہےاس لیے شاعر کی طبیعت،مزاج،ماحول،زمانے اور حالات کا اثر سوز وآہنگ پر پڑتا ہے۔ مَشّاق اور قادرالکلام شاعر تھوڑے الفاظ نیز تشبیہات و استعارات کی مدد سے کسی بات کوبھی بہت آسانی سے بیان کر سکتا ہے جو نثر نگار کے لیے مشکل امرہے۔