غم ہائے روزگار میں الجھا نہیں کہیں
رشتہ ترے خیال کا، ٹوٹا نہیں کہیں
خود آپ اپنا رستہ بنایا ہے ہر جگہ
میں آبِ آبشار ہوں ٹھہرا نہیں کہیں
اجزائے جسم و جاں میں کشش کم نہیں ہوئی
ٹوٹا ہزار بار ہوں، بکھرا نہیں کہیں
شاید وہ جان بوجھ کے انجان بن گیا
یا پھر وہ میری بات ہی سمجھا نہیں کہیں
یوں تو ہزار موڑ نکل آئے راہ میں
لیکن! کسی بھی موڑ پہ اٹکا نہیں کہیں
اپنا بھی اک مقام ہے، دشتِ جنون میں
اہلِ خرد کے دیس میں چرچا نہیں کہیں
اک شخص بے قرار سا دیکھا گیا ادھر
پہلے وہ اس گلی سے تو گزرا نہیں کہیں
وہ عید پر بھی ملنے نہیں آئے گا کبھی
اس درجہ اختلاف کا سوچا نہیں کہیں
میں ہی ظفر حیؔات ہوں اور میں ہی نا مراد
ایسا تضاد اَور تو دیکھا نہیں کہیں