آ رہے ہیں وہ دن گل بدن جب تجھے
پارسائی کا پچھتاوا ڈسنے لگے گا
ترے جسم و جاں پر اترنے لگے گا
عذابوں کی صورت
کچلنے لگے گا تری روح کو
روح جس نے بدن کو ٹھکانا کیا!
حسرتا وہ بدن جس نے ممنوعہ لذت نہ چکھی کبھی
ہائے وہ جسم جس نے کسی کو نہ چھپ کر چھوا
جس کو روکا گیا اور ڈانٹا گیا
حیف اس جسم پر
جس کا انکار کرتے جوانی گئی
آ جوانی کے دریا پہ باندھی گئی بندشیں توڑ دیں
آج خود سے بغاوت کریں اور دنیا کا رخ موڑ دیں
پارسائی کی مٹکی یہیں پھوڑ دیں
ورنہ نزدیک ہیں۔۔۔۔
آ رہے ہیں وہ دن گل بدن جب تجھے
پارسائی کا پچھتاوا ڈسنے لگے گا