سنا تھا لوگ بدل جاتے ہیں
سنا تھا زخم سل جاتے ہیں
سنا تھا گھاو بھر جاتے ہیں
سنا تھا دن رات کے پاٹوں میں کرب پس جاتے ہیں
وقت کے الاو میں درد راکھ ہو جاتے ہیں
اور راکھ کو اڑا دیتی ہے سمے کی آندھی
مگر یہ کیا کہ ہم بدلتے ہی نہیں
زمانے کے سانچے میں ڈھلتے ہی نہیں
جو دل کو لگی ہے وہ جوالا بجھتی ہی نہیں
جو قطرہ قطرہ دہک رہا ہے
پھیل رہا ہے میری رگوں میں
وہ ہے تاوان لہو کا
کسی صورت نروان جو ملتا ہی نہیں
تو قلم بھی میرا اب رکتا ہی نہیں