کہنے کو تو وہ ایک عام سے گھرانے کا عام سا شخص تھا تو وضع قطع چال ڈھال نین نقوش سبھی اوروں کی طرح ہی تھے چونکہ مفلس زدہ علاقے سے تعلق تھا تو خواہشوں تمناؤں آرزؤں کو پنپنے سے قبل ہی زندہ در گور کردیا ۔گھر میں سب سے چھوٹے ہونے کے باعث لاڈلا ہونا یقینی تھا۔ چنانچہ یہی وصف کام آیا کہ والدین نے اسے تعلیم کے لیے وقف کردیا۔ایشیا کے مقتدر دینی مستقر سے فراغت کے بعد شادی بھی ہو گئی مگر افلاس کی سیلن گھر کی انگنائی سے جانے کو تیار نہ تھی۔
کسی مہربان نے وزٹ پہ شارجہ بلایا مگر قسمت کو یارا نہ تھا مجبورًا تین ماہ بعد واپسی کے لیے کجاوا کسنا پڑا مگر اب کجاوے میں عرب دنیا کی مارکیٹ میں متعارف عربی بھی در آئی تھی جو ازاں بعد قطر پہنچنے کے لیے کام آئی مگر ایک بار پھر بخت نے کج ادائی کی اور قطر سے بھی سفینے کا لنگر اٹھانا پڑا۔
وہ دھیرے دھیرے ٹوٹ رہا تھا کیونکہ ہر گزرتا وقت اسے اپنے لیے تازیانے کے قبیل سے محسوس ہوتا اور وقت تھا کہ ایک جانب تیز ترین رفتار سے سفر بردوش تھا تو دوسری جانب وہی وقت برا بھی چل رہا تھا مگر سیمابی کیفیت کے حامل اس شخص نے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرنے کے بجائے متعدد وجود اختیار کرتے ہوئے خود اعتمادی کی ڈور سے انہیں باھم پیوست کردیا۔
بخت کے تخت نے دوبارہ دبئی سے آواز دی تو بلا تامّل لبیک کہتا ہوا الشائع میں وارد ہوا اور چند ماہ بعد ہی اپنی صلاحیتوں کے جادو سے بھتیجے کو بھی اسی کمپنی میں بلوایا ہی تھا کہ نئی جست میں اپنے ہم زلف کو بھی اپنا ہم رکاب بنا لیا۔ وقت کا کیا ہے وہ تو دبے پاؤں سرکتا ہی ہے تو اب وقت سرک سرک کے عمرِ عزیز کے لیل و نہار کو کتر رہا تھا کہ کشتی ڈگمگا گئی۔ کمالِ صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئی کمپنی میں انچارج کے عہدہ پہ فائز ہوا اور یکے بعد دیگرے اپنے نصف درجن اقربا اور یتیموں کو مؤقر عہدوں پہ فائز کرتا چلا گیا۔
پھر بھی اپنی ذات میں خلا کے احساس سے مجبور ہوکے بار بار مراقبہ کیا اور پایا کہ اللہ کی محبت اور اس کے کلام سے عشق اپنا ذاتی مال و موال اور وقت لگائے بنا حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے اس خیال کا آنا تھا کہ تبلیغی حلقے کا بارز حلقہ بن گیا اور پھر دیکھتے دیکھتے شوپ کی ڈیوٹی کے ساتھ قرآن پاک بھی حفظ کرلیا جس پر کمپنی کے مالک نے بے پناہ خوشی کا اظہار کیا اور مرتبہ و منصب میں اضافہ بھی کردیا بفضلِ خدا تبلیغی امور میں مالکان کے ساتھ سرد و گرم علاقوں کے گشت پہ ہوتا تو کبھی عطورات کے نئے نام کے لیے دینی اثاثہ جات کا مطالعہ کرتا ازاں بعد اس کی خطاطی سے نگاہوں کے سرور کا سامان مہیا کرتا جس کی برکتوں نے دو بار حج کی سعادت بھی نصیب کروادی ۔اب کمپنی اسے شجرِ مبارکہ تصور کرنے لگی تھی تو کم و بیش ساٹھ ستر برانچوں پہ اسے صرف عربی و آداب کی تعلیم کی ڈیوٹی دے دی گئی بقیہ اوقات اللہ سےلو لگانے کے لیے فری ہینڈ بنا دیا گیا۔
وقت پھر سرکنے لگا مگر اس بار اس کے سرکنے میں سرسراہٹ کے بجائے قدسی آہٹ بھی شامل تھی اور پھر وقت نے دیکھا کہ ۲۰۲۰ء کے ۱۸ستمبر بروز جمعہ مبارکہ مولانا ممتاز قاسمی کی اہلیہ نے اپنے شوہرِ نامدار کو حفظِ قرآن کا آخری سبق سنا کے حفاظِ قرآن کی سنہری کڑی سے خود کو مربوط کرلیا۔
یہ امر واقعی قابل تقلید و داد ہے کہ ایک کمپنی کے مالک نے دو حافظوں کو تیار کروانے میں دل کھول کے مدد کی جبکہ دونوں حفاظ نے اپنی شبینہ دعاؤں کے ہر حرف میں انہیں شامل رکھا اسی لیے کہا جاتا ہے کہ خیر الجلیس یعنی بہتر ساتھی بنائیے تاکہ وہ سعادت کی راہوں پہ خود بھی چلے اور آپ کو بھی چلنے کی تلقین کرے۔
قصۂ مذکورہ میں ایک کمپنی کے مالک سے بہتر کون جلیس ہو سکتا ہے جس نے اپنے ایک شوروم کو درس گاہ برائے حفظِ قرآن بنا دیا ہو وہیں اس ایمپلائی سے بہتر کون ہوسکتا ہے جس نے سیل پوائنٹ سے انصاف کرتے ہوئے قرآن پاک بھی حفظ کرلیا ہو اور پھر ہم کیوں بھولیں کہ اس سے بہتر بیوی کون ہوسکتی ہے کہ آج جیسے فیشن پرست زمانے میں اپنے شوہر کی ایما پہ قرآن کی حافظہ بن گئی ہو۔ تبارک الرحمٰن۔ نور علی نور ۔ الف الف مبروک!!اللہ پاک انہیں کے جیسے خیر الجلیس سبھی کو عنایت فرمائیں۔آمین
” خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ وَاَنَا خَیْرُکُمْ لِاَھْلِیْ۔ “)مشکوٰة ص:۲۸۱(
ترجمہ:تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے سب سے اچھا ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے لئے تم سب سے بڑھ کر اچھا ہوں۔