عمومی طور پر تمام ادبی مضامین نگار ابتدائیہ کے طور پر بہتر ترین ادبی انشائیہ کے ذریعہ افتتاحیہ کے خدوخال میں رنگ بھرنے کی کوشس کرتے ہیں بعض کا سکتہ بدست اسلوب اور لکنت بکف جملہ سازی واقعی طبیعت کو مکدر کر جاتی ہے جبکہ ادب کے میدان میں خون پسینہ کے ساتھ شبِ دیجور کی کالک کو قطرہ قطرہ گھونٹنے والے جیالے اپنے مافی الضمیر کو ادا کرنے کیلیے ایسے شستہ و شفتہ شاداب و دلپذیر نرم و نازک دل پسند اور من موہک طرقِ جدیدہ کا استعمال کرتے ہیں کہ ادب کے کلیّات و مسلّمات چکنے فرش پر بکھرے رائی کے دانوں کی طرح واضح مبسوط اور مدلل ہوتے ہیں اُن مسلّمات و کلیّات میں ادب خصوصا شاعری کے مدارج اور اس کے ارتقائی مراحل کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ شعرا برادری کے امور طبیعیہ میں سے ہے کہ اوّلا وہ تُک بندی کے ذریعہ اپنے کیریئر کا آغاز کرتے ہیں ازاں بعد مشق کا ایک لامتناہی گھنیرا جنگل عبور کرکے مطالعہ اور مشورہ کے متوازی ریگزار کا یقینی و غیر یقینی سفر کرتے ہیں اور پھر یہیں سے ان کی شاعری میں تراکیب کا جاہ و جلال لفظ کی حشمت و جلالت بیان کی ندرت و انفرادیت جنم لیتی جو بسا اوقات شاعر کی آخری سانس تک کسی مخلص یار غار کی طرح ہم قدم و ہم خیال ہوتی ہے وہ معدودے چند شعرا واقعی خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں اس سے بھی اگلے مرحلے کی زیارت نصیب ہوتی ہے جسے زبان کی چاشنی اور اس کی حلاوت و صلابت کے ساتھ نغمگی رخشندگی سے بہت آگے درخشندگی کا چاک نصیب ہوتا ہے یقین کیجیے جسے یہ گہر آشنا رفعت پذیر چاک نصیب ہوجائے اس کے قلم سے در شہوار ہی جنم لیتے ہیں
تھک گئے ہیں منا منا کے اسے
چلیے اب ہم بھی روٹھ جاتے ہیں
پارسائی وبال بن جائے
آدمی اتنا پارسا نہ بنے
اس کو پوجا نہیں ہے چاہا ہے
اس سے کہہ دو کہ دیوتا نہ بنے
دلِ بیتاب کو تھوڑا سا قرار آجاتا
تو مجھے یاد ہی آجاتا ترا کیا جاتا
بے سبب اب کہاں دھڑکتا ہے
دل کو میرا خیال ہو جیسے
ان تمام اشعار میں جذب و انہماک کے علاوہ ابلاغ و ترسیل سے بہت آگے از دل ریزد بر دل خیزد کا حقیقی عنصر کارفرما نظر اتا ہے۔
جو تک بندی کے بعد مشق مطالعہ اور مشورہ کے بطن سے حاصل شدہ ضخیم تراکیب اور جلیل جملہ بافی سے بھی اگلے مرحلے زبان کی شفتگی اور درخشندگی کے قبیل سے ہے
ایک صحرا نورد دریا چشیدہ شاعر جب اس مقام پہ فائز ہوجاتا ہے تو زبان و بیان سے کشید کردہ ہیئولا اس کے لیے کسی مومیائی کھلونے جیسا ہو جاتا ہے جسے وہ جب چاہتا ہے حسبِ منشا پیکر عطا کرتے ہوئے بڑے طمطراق سے کہتا ہے
اس کے حصے کی تشنگی کے لیے
میں نے صحرا کو اختیار کیا
آدمی گردش دوراں سے پریشاں ہو اگر
لوگ ہنس ہنس کے پریشانی بڑھا دیتے ہیں
کل یہ دنیا ہنسے گے تجھ پر بھی
میرے رونے پہ ہنس رہی ھے ابھی
پاس آ دل کا تجھ سے حال کہوں
تیری خاطر غزل کہی ھے ابھی
یہ تمام اشعار اپنے خالق کی عرق ریزی اور مثبت سمت میں صالح سفر کی داستان بیان کرتے ہوئے ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ کہیں کہ ڈاکٹر افتخار شکیل ان ماہرانِ لسان و بیان میں سے ہیں جو مشق مشورہ مطالعہ کے رتھ پر سوار ہوکر درخشندگی کی وادی کے روشن چہرہ فرد ہیں۔
خدا ان کی تابانی کو دوام دے اور کتاب کو افشاءِ فیض کا ذریعہ بنائے ۔آمین