سیٹھ جی کو جیسے ہی پتہ چلا کہ جمنا بائی کے آنگن میں نیا پھول کِھلا ہے تو وہ رات ہوتے ہی کاروبار بند کر کے جمنا بائی کے مسکن کی طرف چل دئیے۔ انہوں نے اپنے چہرے کو بڑے رومال سے ڈھانپ لیا تھا کہ جیسے کوئی انہیں پہچان نہ سکے ویسے کچھ سردی بھی تھی۔ وہ جب بھی جمنا بائی کے ہاں جاتے تو اسی طرح جاتے تھے وہاں بھی وہ اپنے چہرے سے رومال نہیں ہٹاتے تھے۔ جمنا بائی کے سوا اور کوئی ان کو نہیں جانتا تھا۔ جمنا بائی کی انہوں نے برے وقتوں میں بڑی مدد کی تھی سو وہ اسی طرح ان کا احسان اتارتی رہتی تھی جبکہ سیٹھ جی اپنے علاقہ کے معززین میں شمار ہوتے تھے لیکن کسی کو بھی ان کے اس روپ کا علم نہیں تھا۔ سیٹھ جی نے مطلوبہ جگہ پہنچ کر اپنی سانسیں بحال کیں تو جمنا بائی نے آواز دی:
"اری جھرنا ادھر آؤ..!!"
دوسرے کمرے سے حسن اور جوانی کا جگمگاتا ہوا ماہتاب طلوع ہوا ایک لمحے کے لیے آنکھیں چار ہوئیں اور یک دم چندا کی چاندنی مانند پڑ گئی اور آنکھیں زمین میں گڑ گئیں۔ سیٹھ جی کو حیرت ہوئی لیکن انہوں نے اظہار نہیں کیا۔ جمنا بائی نے اٹھتے ہوئے کہا:"اب آپ لوگ اپنی تسکین کا سامان کریں میں چلتی ہوں"
جمنا بائی کے جانے کے بعد سیٹھ جی نے اس پری وش کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن بیکار! اس نازنین نے پھر آنکھیں اوپر نہیں کیں سو نہیں کیں اور یونہی نظریں جھکائے قریب بیٹھ گئی۔ سیٹھ جی کو عجیب کوفت سی محسوس ہوئی تو آخر انہوں نے پوچھ ہی لیا:"تم میری آنکھوں میں کیوں نہیں دیکھ رہی؟"
وہ خاموش رہی سیٹھ جی نے اپنا سوال دہرایا تو اس نے کہا:"اگر میں نے آپ کی آنکھوں میں دیکھا تو کپڑے نہیں اتار سکوں گی..!!"
سیٹھ جی کو حیرت ہوئی ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا:" کیوں ..!!؟ "
اس کی آنکھیں بھر آئیں اس نے دونوں ہاتھوں سے آنکھوں کو صاف کیا اور آہستہ سے کہا:
"آپ کی آنکھیں میرے بابا کی آنکھوں جیسی ہیں!!!!