کاتب سے ہمہ وقت مجھے اک گلہ رہا
دنیا میں زندگی کا تماشہ بنا رہا
وه جاچکا ہے آنکھ میں ٹھہرا کے انتظار
بارش کے ساتھ ساتھ دیا بھی جلا رہا
میں جارہی تھی اپنی لحد خود ہی کھودنے
وه ساتھ آگیا تو بہت حوصلہ رہا
کل رات میں نے دیر تلک اس سے بات کی
تھا فون بند پھر بھی مرا رابطہ رہا
شہرِخیالِ یار سے ہجرت کے بعد بھی
یادوں کے پائیں باغ دریچہ کھلا رہا
کیا مجھ کو اس سے چاہیے کیوں میں ملول ہوں
میری ہر احتیاج سے وه ماورا رہا