اس جہاں میں لوگ اکثر ظلم سہہ کر جی رہے ہیں
خوف اتنا ہے کہ بس یہ ہونٹ اپنا سی رہے ہیں
ہے ازل سے ظلم جاری، ہیں فقط چہرے بدلتے
جبر کے مارے یہاں پر اشک اپنا پی رہے ہیں
لوگ چپ ہیں یہ نہ سمجھو شہر میں ہے ٹھیک سب کچھ
آدمی کے روپ میں اب کچھ درندے بھی رہے ہیں
ہے وفاداری جہاں مشروط اب بھی ناخدا سے
شہر میں جس کے پرندے بھی وہاں زخمی رہے ہیں
خوف میں ہیں مبتلا ہم نام لے سکتے نہیں ہیں
واقفان حال آغا کچھ یہاں پنچھی رہے ہیں