شاخ نے ڈھونگ رچا رکھا ہے
پھول کو سر پہ چڑھا رکھا ہے
مخملیں گھاس پہ برکھا رت نے
ہنس کے شبنم کو لٹا رکھا ہے
تیر بھی چھوڑا ہے طائر کی طرف
دل میں بھی خوفِ خدا رکھا ہے
شام تاباں نے دمکتا عارض
سرخ چھتری میں چھپا رکھا ہے
کہکشاؤں نے بھری محفل میں
تھال کرنوں کا اٹھا رکھا ہے
کس کی آمد ہے لب احمر نے
سرخ قالین بچھا رکھا ہے
جانے کس بات پہ گردابوں نے
سر پہ کشتی کو اٹھا رکھا ہے
مری شہ رگ کے قریں ہے صابر
جس کو برسوں سے بھلا رکھا ہے