بے نقاب اُس نے جب جمال کیا
سب کی آنکھوں کو یرغمال کیا
پر جَلی تتلیاں ہیں چاروں طرف
شِدّتِ حُسن نے وُہ حال کیا
جونہی دِلکش کلائی دِکھلائی
ٹھیک سے سوچنا محال کیا
اُس کے لب اِتنے نرم و نازُک تھے
پھول نے اُس کے آگے گال کیا
عنبریں زُلف میں سجا کے پھول
پھول کا رُتبہ بے مثال کیا
صرف اِک جان ہی تو مانگی تھی
ہم نے دے دی تو کیا کمال کیا
زَن مریدی کرو کہ قیسؔ کو بھی
عشقِ لیلیٰ نے لازَوال کیا