رنگِ ہستی کو مِرے رنگ نیا دیتی ہے
تِری صورت مری آنکھوں کو جِلا دیتی ہے
زرد پتوں میں بھی پھر جان سی پڑ جاتی ہے
وصل کی دھوپ مِرے من کو کِھلا دیتی ہے
شدتِ کرب سے گر سانس اکھڑ بھی جائے
یاد تیری مجھے جینے کی دعا دیتی ہے
جس نے دیکھی ہی نہ ہو دل پہ لگی ضرب کبھی
اس کو کیا علم وفا کیسی سزا دیتی ہے
رقص کرتی ہوئی دہلیز پہ آتی ہے ہوا
مرے محسن ترے آنے کا پتا دیتی ہے
ربط رشتوں میں صداقت کے سبب ہے عشؔبہ
جهوٹ وہ شے ہے جو بنیاد ہلا دیتی