خشک مٹی کو مری آنکھ وصیت کرنا
مر بھی جاوں تو مرے خواب امانت کرنا
میں نے سیکھا ہے چراغوں کی طرع جلتے ہوئے
آنے والوں کو نئی صبحیں بشارت کرنا
قریئہ خلد میں جینے کی رتیں بیت گئیں
عمر بھر اب اسی زنداں پہ قناعت کرنا
کتنی یادوں کو کیا ہے وہاں زندہ در گور
کوئی آسان تھا اس شہر سے ہجرت کر نا
پھر بھلا کیسے اترتا یہ دوپٹہ سر سے
جب ترا حکم تھا آنچل کی حفاظت کرنا
کون ٹانکے گا کوئی پھول مرے جوڑے میں
کس کو آتی ہے بھلا تم سی شرارت کرنا
کیا سمجھتے ہو کہ آسان ہے یوں شعروں میں
دل پہ گزرا ہوا ہر زخم عبارت کرنا
کوئی تعبیر نہ مانگے تو بہت ممکن تھا
خواب کے شہر میں آنکھوں کی حفاظت کرنا
اور کچھ بھی تو نہیں چاہتی ایماں تم سے
بس مرے عہد کے لوگو !نہ محبت کرنا