غمِ حسرت کو کیوں اس روح کی پوشاک رکھا ہے
دکھوں کو تم نے کیوں اپنی بھلا املاک رکھا ہے
اگر تم کو محبت کا سفر آسان لگتا ہے
تو پھر کس واسطے تم نے یہ دامن چاک رکھا ہے
نہ جانے کون سا سر ہو کسی تلوار کے آگے
مرے دشمن نے ہر جانب نشانہ تاک رکھا ہے
تری ہی بندگی کو تو جھکا رہتا ہے سر میرا
حسابِ بندگی کو میں نے یوں بے باک رکھا ہے
کسی کے واسطے فرحتؔ برائی ہی نہیں سوچی
کہ میں نے نفرتوں سے اپنے دل کو پاک رکھا ہے
***
شہزاد نیر
میں تو خود پر بھی کفایت سے اسے خرچ کروں
وہ ہے مہنگائی میں مشکل سے کمایا ہوا شخص