میری نگاہِ شوق کو تو حاصلِ قرار کر
گلشنِ برگ ریز کو آمادۂ بہار کر
سب کی طرف نظر تری سب پر نگاہِ التفات
میری طرف بھی دیکھ لے میرا کہیں شمار کر
میں نے خیال و خواب میں برسوں تراشا ہے جسے
اس خاکۂِ خیال کو اب میرا شاہکار کر
تیری یہ بے رخی مرے جذبوں کو سرد کر گئی
جذبات کی تپش سے پھر شعلہ و شرار کر
جس نئی صبح کا کبھی دیکھا تھا ایک خواب سا
آئے گی وہ ضرور ہی تھوڑا سا انتظار کر
آنکھوں سے گر کے رائیگاں جانا ہی ہیں جو یہ صدف
نہ رنج کر نہ غم اٹھا نہ چشم اشکبار کر