پھر سماعت کو بھی بھاتا ہے ردھم ترتیب سے
ہو اگر اس میں ترے لہجے کا دم ترتیب سے
تجھ سے ملتے ہی یوں کِھل جاتے ہیں ہم ترتیب سے
جوں ہو پَت جھڑ میں بہاروں کا جنم ترتیب سے
ہم فقیروں کا بھی رکھتے ہیں بھرم ترتیب سے
ہوتی ہے سب پر نگہِ اہلِ کرم ترتیب سے
ہم نبھائیں بھی اگر قول و قسم ترتیب سے
لوگ ظالم ہیں دیے جاتے ہیں غم ترتیب سے
ایک اک کر کے کریں گے پیش سب فرمائشیں
یعنی ڈھائے جائیں گے تم پر ستم ترتیب سے
ہو دلِ مفلس میں خوباں کو سکوں کیسے ، کہ ہے
لا محالہ دھڑکنوں کا زیر و بم ترتیب سے
یار بے ڈھنگا چلن اچھا نہیں ہے زیست میں
ہم اصولی ہیں اٹھائیں گے قدم ترتیب سے
موت برحق تو ہے لیکن اک قرینے کی طرح
خود کو میں لے کر گیا سوۓ عدم ترتیب سے
جوس ، چائے ناشتہ پھر کرتے ہیں کچھ دوڑ دھوپ
جب امیری ہو تو بھرتا ہے شکم ترتیب سے
راستے ہموار ہوتے ہی نہیں میرے لیے
ٹھوکریں کھا کے بنا ہوں میں تَہَم ترتیب سے
عہدِ فرقت چند آنسو اور ہچکی موت کی
وقتِ رخصت ہے، سو نکلے ہے نَسم ترتیب سے
زندگی میں صرف بچپن کو میسر ہے سکوں
پھر جوانی اور ضعیفی ہیں اَلم ترتیب سے
چار عنصر ہیں یوں تو تخلیقِ انساں میں مگر
پانچواں دُکھ مجھ میں شامل ہے بَہَم ترتیب سے
سب کی سنتا تھا کبھی روداد علوی شوق سے
جھوٹ سن سن کے بنا ہے یہ اَصَم ترتیب سے