کہیں زلفیں کہیں آنکھیں کہیں ابرو تیرے
کتنے عنوان لئے آئی ہے خوشبو تیرے
صندلیں شانوں پہ مہکے ہوئے گیسو تیرے
صدقے رہ رہ کے ہوئی جاتی ہے خوشبو تیرے
کس طرح باندھوں میں ایکسوی بتا اے جاناں
جبکہ بکھرے ہوئے جلوے ہیں ہراک سوتیرے
اچھے اچھے بھی تیرے دام میں آجاتے ہیں
توڑ کوئی نہیں جن کا وہ ہیں جادو تیرے
رونق افروز ہوئی جاتی ہے دل کی دہلیز
قوس محراب ہوئے جاتے ہیں ابرو تیرے
جوش میں آگئی اللہ کی رحمت بھی"صدا"
منفعل آنکھ سے جب ڈھل گئے آنسو تیرے
***
روبینہ میر۔کشمیر
حیوان اپنے سر کو جُھکاتا ہے شرم سے
جب آدمی کو نوچ کر کھاتا ہے آدمی