فضامیں ڈوبی ہوئی سازشوں نے گھیر لیا
بچھڑ کے تم سےہمیں حادثوں نے گھیر لیا
قدم قدم پہ ہمیں دشمنوں کی یاد آئی
کچھ اس ادا سے ہمیں دوستوں نے گھیر لیا
یہ غم نہیں کہ ہمیں حوادث نے کر دیا پتھر
ستم تو یہ ہے کہ اب آئینوں نے گھیر لیا
نہ پوچھ کیسے کٹے تیرے بعد شام وسحر
کبھی غموں نے کبھی الجھنوں نے گھیر لیا
ہم آرزو یہ سمجھتے تھے مل گئی منزل
ڈھلی جو شام تو پھر راستوں نے گھیر لیا