شکستہ جسم لیے ہم تمہارے ساتھ چلے
کسی فقیر کی جس طرح کائنات چلے
وجود ہم نے دیا تھا زمانے بھر کو نیا
زمیں کی چارہ گری میں ہمارے ہاتھ چلے
نہ بزم میں کوئی ہلچل نہ خلوتوں میں سرور
سو منتظر ہے زمانہ کہ اس کی بات چلے
نظر کی ایک خطا نے بنا دیا مجرم
تمام جسم پہ دل کے مقدمات چلے
میں اپنے باپ کی کتنی ذہین بیٹی تھی
مرے نصیب سے گھر کے معاملات چلے