حسن سے شرح ہوئی عشق کے افسانے کی
شمع لو دے کے زباں بن گئی پروانے کی
شان بستی سے نہیں کم مرے ویرانے کی
روح ہر بونڈلے میں ہے کسی دیوانے کی
آمد موسم گل کی ہے خبر دور دگر
تازگی چاہئے کچھ ساخت میں پیمانے کی
آئی ہے کاٹ کے میعاد اسیری کی بہار
ہتکڑی کھل کے گری جاتی ہے دیوانے کی
سرد اے شمع نہ ہو گرمی بازار جمال
پھونک دے روح نئی لاش میں پروانے کی
اٹھ کھڑا ہو تو بگولا ہے جو بیٹھے تو غبار
خاک ہو کر بھی وہی شان ہے دیوانے کی
آرزوؔ ختم حقیقت پہ ہوا دور مجاز
ڈالی کعبے کی بنا آڑ سے بت خانے کی