محترم قارئین! انگریز لکھاری جناب George Orwell کے ناول Animal farm کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ شہرہ آفاق ناول کئی ممالک کے تعلیمی نصاب کا حصہ بھی حصہ ہے۔ اس کے دس ابواب ہیں اور ہر بار ایک باب کا اردو ترجمہ دیا جایا کرے گا۔ مدیر اعلیٰ
***
باڑہ میں گزرنے والے اس سانحہ کی خبر موسم گرما کے اواخر تک تقریباً آدھے ملک میں پھیل چکی تھی نپولین ؔ اور سنوباؔل بلاناغہ کبوتروں کو دیگر ہمسایہ باڑوں کی طرف مختلف ہدایات دے کر بھجواتے جو انہیں بغاوت کی ساری کہانی سنانے کے ساتھ ساتھ ’’ برطانیہؔ کے جانور ‘‘نامی گیت بھی یاد کرواتے تھے۔
اس دوران مسٹر جونزؔ اپنا زیادہ تر وقت ولنگڈن ؔ میں واقع ریڈ لائن کلب کے شراب خانہ میںگزاردیتا تھا۔وہ ہر ایک کو اپنی بپتا سنانے کی کوشش کرتا اور جو کوئی بھی آمادہ ہوتا اسے جانوروں کی ناانصافی کی داستان سناتا۔شروع شروع میں کسانوں نے اس کی باتوں کو کوئی اہمیت نہ دی، گو بظاہر ہر کوئی اس کے ساتھ ہمدردی جتاتا لیکن ہر کوئی دل ہی دل میں سوچتا کہ آخر کس طرح مسٹر جونزؔ کے ساتھ ہونے والے اس المیہ کو اپنے مفاد میں استعمال کرے؟یہ تو مسٹر جونزؔ کی خوش نصیبی تھی کہ اس کے باڑہ سے ملحقہ دو نوں باڑوں کے مالکان مسلسل زبوں حالی کا شکار تھے ورنہ اس باڑہ پر قبضہ کر لینا ان کیلئے چنداں مشکل نہ ہوتا۔ان میں سے فوکس ووڈ ؔ نامی باڑہ رقبہ کے اعتبار سے بہت بڑا اور پرانی طرز کا آئینہ دار تھا۔ جو مسلسل بے توجہی کا شکاررہنے کی وجہ سے گھاس پھونس اور خود رو پودوں اور جڑی بوٹیوں سے اٹا پڑا تھا، اُس کی چراگاہیں تک خشک ہو چکی تھیں اور پگڈنڈیوں کی حالت انتہائی مخدوش ہو چکی تھی اس کا مالک مسٹر پلنگٹنؔ انتہائی سادہ لوح اور ایسا شریف النفس انسان تھاجو اپنا زیادہ تر وقت ،موسم کی مناسبت سے مچھلی یا دیگر جنگلی جانوروں کے شکار میں گزار دیتا تھا۔
پچفیلڈ ؔ نامی دوسرا ملحقہ باڑہ نسبتاً چھوٹا اور کچھ بہتر حالت میں تھااس کا مالک مسٹرفریڈرکؔ ایک چالاک اور سفاک انسان تھا جو ہروقت کسی نہ کسی مقدمہ میں الجھا رہتا،لین دین کے معاملہ میں بھی پرلے درجہ کا بد دیانت تھااس لئے وہ ایک دوسرے کو اس قدر نفرت کی نگاہ سے دیکھتے کہ بعض اوقات اپنے انتہائی مفادات کے تحفظ کی خاطر بھی ایک دوسرے سے بمشکل ہی اتفاق کیا کرتے تھے۔
تاہم وہ دونوں جانوروں کے اس باڑہ پر ہونے والی بغاوت سے بری طرح خوفزدہ گئے تھے اور اس کوشش میں مصروف تھے، کہ ان کے باڑہ پر موجود جانوروں کوکسی بھی طرح اس واقعہ سے قطعاً بے خبر رکھا جائے۔اپنے باڑہ کا سارا انتظام خود ہی سنبھال لینے والے معاملہ کو انہوں نے جانوروں کے حق میں بہتر خیال نہ کرتے ہوئے ابتدا میں تو تخفیف کی نظر سے دیکھااور پھرخوب ٹھٹھہ اڑایا، کیونکہ ان کے خیال میں یہ سب کچھ دو ایک ہفتوں میں ختم ہو جانے والا تھا انہیں چونکہ ’’ جانوروں کا باڑہ ‘‘ نام سے ہی چڑ تھی ، اس لئے وہ اسے اس کے پرانے نام ’’ مینر فارم ‘‘ سے ہی پکارتے تھے۔چنانچہ انہوں نے یہ خبرعام کر دی تھی کہ اس باڑہ کا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد تمام جانور ہمہ وقت آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں اور مسلسل فاقہ کشی کا شکار ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب ان کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیاں سب پر آشکار ہو گئیں تو فریڈریکؔ اور پلنگٹنؔ نے پینترا بدلا اور یہ بے پر کی اڑانی شروع کر دی کہ ’’جانوروں کے باڑہ‘‘ پر اخلاقی اور جنسی بے راہ روی راہ پاگئی ہے، یعنی وہاں جانور ایک دوسرے کا گوشت کھانے کے عادی ہو چکے ہیں نیزگھوڑوں کے لوہے کے نعل آگ میں تاپ تاپ کر ایک دوسرے کو بے دردی سے داغا جاتا ہے اور جنسی بے راہ روی کا یہ حال ہو چکا ہے کہ اپنی اپنی مادہ کی تمیز بھول چکے ہیں۔انہوں نے اپنی بات میں مزیدزورپیدا کرنے کیلئے یہ بھی کہا کہ قوانینِ قدرت سے بغاوت کا بالآ خر یہی انجام مقدر تھا۔
تاہم کسی نے بھی ان کہانیوں کو دل سے تسلیم نہ کیاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس باڑہ سے انسانوں کے نکال باہر کئے جانے اورتمام معاملات اور انتظامات جانوروں کے خود ہی سنبھال لینے کی حیرت انگیز کہانیاں اور افواہیں دوسرے شکستہ حال باڑوں کی فضاؤں میں مسلسل گردش کر تی رہیں،اور ایک سال کے مختصر سے عرصہ میں گاؤں کے سارے جانوروں میں بغاوت کی ایک شدید لہر دوڑ گئی۔
اور تواور اچھے خاصے تربیت یافتہ بیل اچانک وحشیانہ طرز ِ عمل پراتر آئے، بھیڑوں نے حفاظتی جنگلے توڑ ڈالے اور سارے کا سارا چارہ ایک ہی دن میں چٹ کر گئیں، گائیوں نے دودھ سے بھری بالٹیاں ٹھوکریں مار مار کر الٹا دیں، شکاری جانوروں نے اپنے حفاظتی بندتوڑ ڈالے اورشکار کیلئے استعمال ہونے والے گھوڑوں نے اپنے اصطبل توڑنے کے ساتھ ساتھ اپنے سواروں کو اوندھے منہ گرا نا شروع کردیا ۔
برطانیہ ؔکے جانور، گیت کی لے بلکہ الفاظ بھی بے حد پذیرائی حاصل کر چکے تھے گویا جنگل کی آگ کی طرح شش جہات میں پھیل چکے تھے۔اگرچہ انسانوں نے اس گیت کو بظاہر مضحکہ خیز قرار دے رکھا تھا پھر بھی اسے سنتے ہی ان کاخون کھول اٹھتا اور اندر ہی اندر غم وغصہ کی ہیجان آمیز لہر دوڑ جاتی تھی یہ بات ان کی سمجھ سے بالا تھی کہ ایسا حقارت آمیز اور بے ہودہ گیت گانے کیلئے جانور متحد کیسے ہوگئے تھے؟اس غم وغصہ کا اظہار یوں کیا جاتا کہ جب بھی کوئی جانور یہ گیت گاتاپکڑا جاتا تو اسے موقع پر ہی سزا دی جاتی لیکن ان سب انتظامات اور کوششوں کے باوجود بھی کسی طوراس گیت کی مقبولیت میں کمی نہ آ سکی۔کوئل درختوں کے پتوں میں چھپی بیٹھی گا رہی تھی تو کبوتر درختوں پر پھڑپھڑاتے ہوئے اسے الاپتے رہتے ،گھوڑوں کے نعل بنانے کی آواز بھی اسی گیت کی غمازی کرتی تھی تو چرچ کی گھنٹیوں میں بھی اب تویہی آواز سنائی دینے لگی تھی،اور جب انسان تک یہ آواز پہنچی تو وہ اپنے انجام کے بارہ میں سوچ کر اندر ہی اندر لرز کر رہ گئے
اوائل اکتوبر میں چنے کی فصل کاٹ کر اس کا کچھ حصہ محفوظ کر لیا گیا تھا جبکہ باقی فصل کو دیکھ دیکھ کر جانور خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے، اچانک انہوں نے دیکھا کہ صحن میں کبوتروں کا ایک غول اترا وہ کچھ گھبرائے ہوئے دکھائی دے رہے تھے تھوڑی ہی دیر میں ان کے بتانے سے یہ عقدہ کھلا کہ فوکس ووڈؔ اور پچفیلڈؔکے درجنوں ملازم جونزؔ اور اس کے ملازمین کے ہمراہ بیرونی پنج سلاخی پھاٹک کی طرف سے باڑہ تک آنے والے اُس رستہ پر برق رفتاری سے چلتے ہوئے اندرگُھسے چلے آرہے ہیں، جس پر چھکڑا چلایا جاتا ہے ۔ اُن کے ارادے واقعتا خطرناک دکھائی دے رہے تھے کیونکہ سبھی نے ڈنڈے اٹھارکھے تھے اور مسٹر جونزؔ کی قیادت میں تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے جبکہ مسٹر جونزؔ کے ہاتھوں میں بندوق صاف دکھائی دے رہی تھی ۔ ان کے انداز سے صاف عیاں تھا کہ وہ باڑہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کا پختہ ارادہ لے کر آئے ہیں۔
جانوروں کو چونکہ اس کا احسا س بہت پہلے ہو چکا تھا کہ ایسے حالات کسی بھی وقت پیش آسکتے ہیں چنانچہ انہوں نے اس کیلئے پیش بندی کر رکھی تھی۔ سنوبالؔ نے عمارت سے ملنے والی جولیئس سیزرؔ کی جنگی مہمات پر مشتمل ایک پرانی کتاب کا مطالعہ کر کے دفاعی نقطۂ نگاہ سے ایک بہت اچھا منصوبہ تیار کر رکھا تھا۔ویسے بھی باڑہ کی دفاعی صورت حال اور نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی ذمہ داری اُسی کوسونپی گئی تھی۔ اُس نے جنگ کے حالات پیدا ہوتے ہی بڑی سرعت سے احکام جاری کئے اور چند لمحوں میں تمام جانوروں نے مقرر ہ جگہوں پر پہنچ کر اپنی اپنی شست سنبھال لی۔اب جانور ہر قسم کی صورت حال سے نمٹنے کیلئے پوری طرح تیار تھے۔
جیسے ہی انسانوں کا کیل کانٹے سے لیس یہ ٹولہ باڑہ کی عمارت کے قریب پہنچا ، توسنوبالؔ نے ان پر پہلا وار کیا،سارے کبوتر،جو تعداد میں تقریباً پینتیس تھے، ان کے سروں پر منڈلانے اور بیٹیں کرنے لگے، ابھی یہ لوگ اس افتاد سے نمٹ نہیں پائے تھے کہ جنگلہ کی اوٹ سے ہنس تیزی سے نکلے اور ان کی پنڈلیوں پر بڑی بے دردی سے کاٹنے لگے تاہم انسانی نقطۂ نظر سے انہیں سراسیمہ کرنے کی یہ چال نہایت بودی ثابت ہوئی کیونکہ انسانوں نے ڈنڈے مار مار کر انہیں بھگا دیا۔ اب سنوبالؔ نے دوسرا وار کرنے کی ٹھانی،پہلے سے تیار شدہ منصوبہ کے مطابق اس نے میوریلؔ، بینجمنؔ اور تمام بھیڑوں کو اپنی قیادت میں لیا اور دشمن پر پل پڑا اور انہیں دھکوں ، مکوں اور ٹکروں پر دھر لیاجبکہ بینجمنؔ ہر ایک پر دولتیاں جھاڑنے لگا۔ لیکن انسانوں نے ان کا یہ حملہ بھی ڈنڈوں اور نوکیلے جوتوںکی ٹھوکروں کی مدد سے پسپا کر دیا۔تب اچانک جانوروں کو سنوبالؔ کی چیخ سنائی دی جو جانوروں کیلئے ایک اشارہ تھا کہ تازہ دم ہو کر دوبارہ حملہ کیلئے عارضی پسپائی اختیار کی جائے، چیخ کا سننا ہی تھا کہ تمام جانور حملہ چھوڑتیزی سے بھاگتے ہوئے لوٹے اور پھاٹک سے ہوتے ہوئے صحن میں جا پہنچے۔
انسانوں نے اپنی فتح کا نقارہ بجا دیااو ر دشمن میں بھگدڑ مچتی دیکھ کر،تیزی سے ان کے پیچھے لپکے اور سنوبالؔ بھی تو یہی چاہتا تھا، جیسے ہی وہ سب صحن میں پہنچے تینوں گھوڑوں اور گائیوں نے مل کر ان پر دھاوا بول دیا۔ اب سنوبالؔ نے فیصلہ کن حملہ کا ارادہ کر کے جانوروں کو اشارہ دے دیااور خود سیدھا مسٹر جونزؔ پر پل پڑا۔ جونزؔ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اس پر گولی داغ دی سنوبال ؔ تو بال بال بچ گیا لیکن گولی اس کے پیچھے کھڑی ایک بھیڑکے بدن میں جا گھسی جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئی۔ سنو بال نے ؔ ایک بھی لمحہ ضائع کئے بغیرجونز ؔ پر چڑھائی کر دی جس سے وہ اچانک اچھل کر گوبر کے ڈھیر پر جا گرا اور بندوق اس کے ہاتھ سے نکل کر دور جا پڑی۔ سب سے زیادہ دہشت ناک منظر باکسرؔ کا تھا جو اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو ہو کراپنے لوہے کے نعل سےدشمن پر تابڑتوڑ حملے کر رہا تھا۔اس کی پہلی کاری ضرب کا شکار فوکس ووڈؔ کے اصطبل میں کام کرنے والا ایک نوجوان تھا جسے پہلی ہی ٹھوکر میں اس نے سر کے بل کیچڑ میں اوندھا گرا دیا تھاجس کے نتیجہ میں حملہ آور وں میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ اپنے ڈنڈے تک چھوڑ چھاڑ بھاگنے نکلنے کیلئے پر تولنے لگے کیونکہ انہیں اپنی جان کے لالے پڑ گئے تھے چنانچہ اگلے ہی لمحہ تمام جانور صحن میں بھاگتے ہوئے انسانوں کے پیچھے پیچھے تھے اور مسلسل ان پر سینگوں اور دولتیوں سے تابڑ توڑحملے کر رہے تھے جن کے سینگ نہیں تھے اور نہ ہی دولتیاں جھاڑ سکتے تھے وہ چونچوں اور دانتوں سے انہیں کاٹ رہے تھے تا کہ اس جنگ میں ان کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ضرور پڑ جائے۔ کوئی جانوربھی ایسا نہ تھا جس نے اپنے طور پر اپنی استعداد کے مطابق ان سے انتقام نہ لیا ہو۔حتیٰ کہ بلی بھی اچانک چھت سے کودی،گائیاں چرانے والے کے کندھے پر آبیٹھی اور اپنے نوکیلے پنجے اس کی گردن میں گاڑ دئیے ، وہ درد سے بلبلا اٹھا ۔ ابھی یہ تماشا کچھ دیر اور چلتا لیکن اچانک کسی لمحہ باہر کا رستہ صاف پا کر سارے انسان خود کو خوش قسمت جاننے لگے اور آن واحد میں چوکڑیاں بھرتے ہوئے صحن سے بڑی سڑک کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے، یوں یہ تمام حملہ آور پانچ منٹ کے اندر اندر ہونقوں کی طرح سر پر پاؤں رکھ کر جس طرف سے آئے تھے اسی طرف اس حال میں واپس بھاگ رہے تھے کہ ہنسوں کا شور مچاتا ایک غول مسلسل ان کی پنڈلیوں پر کاٹتا جا رہا تھا۔
ایک کو چھوڑ سبھی بھاگ چکے تھے۔اِدھر پیچھے صحن میں باکسرؔ انتہائی افسردگی کے عالم میں کیچڑ میں لتھڑے نوجوان کی لاش کو اپنے سموں کی مدد سے سیدھا کرنے کی کوشش میں جٹا ہوا تھالڑکا بے حس و حرکت اوندھا لیٹا ہوا تھا ۔
’’یہ تو مر چکا ہے‘‘باکسر ؔ نے دکھی ہوکر اعلان کرتے ہوئے کہا، ’’میرا ارادہ ہر گز اسے مارنے کا نہیں تھا ۔دراصل مجھے یہ بھول گیا تھا کہ میرے پیروں پر لوہے کے نعل چڑھے ہوئے ہیں۔‘‘
پھر وہ نہایت قلق کے ساتھ خودکلامی کے انداز میں بڑبڑایا: ’’میری اس بات کا کون یقین کرے گا کہ یہ سب کچھ میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا !‘‘
’’بھائیو! کسی قسم کی کوئی ہمدردی نہیں چلے گی ‘‘سنو بالؔ ، جس کے زخموں سے ابھی تک خون رس رہا تھا،چلایا: ’’جنگ صرف جنگ ہے اور یاد رکھو کہ انسانوں میں سے بے ضرر صرف وہی ہوتا ہے جو مر جائے۔‘‘
’’میرا مقصدکسی کی جان لینا ہر گز نہیں تھا حتیٰ کہ کسی انسان کی بھی ‘‘باکسر ؔ رُندھی ہوئی آواز میں گویا ہوا۔ ساتھ ہی کسی کی آواز سنائی دی کہ ’’ مولیؔ کہاں ہے؟‘‘مولیؔ واقعتا غائب تھی لمحہ بھر کیلئے سب پر سکتہ طاری ہو گیا کہ کہیں انسانوں کی طرف سے اسے کوئی گزند نہ پہنچ گیا ہویا پھر وہ اسے بھگا کر اپنے ساتھ ہی نہ لے گئے ہوں۔سبھی فکر مندہو کر اسے ڈھونڈنے لگے اچانک وہ اس جگہ سے برآمد ہوئی جہاں گھوڑوں کیلئے چارہ رکھا جاتا تھا۔دراصل جب گولی چلی تو وہ ڈر کے مارے بھاگ کھڑی ہوئی تھی اور محفوظ جگہ پر جا کر چھپ گئی تھی۔ جب سب جانور مولی ؔ کو تلاش کر کے لوٹے تو دیکھا کہ اصطبل والا لڑکا وہاں موجود نہیں تھا وہ دراصل مرا نہیں تھا بلکہ صرف بے ہوش ہوا تھا اور ہوش آنے پر بھاگ نکلا تھاجانور اپنی اس فتح پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اور اپنے اپنے جنگی کارناموں کو یاد کر نے کیلئے اکٹھے ہوئے۔ ہنگامی بنیادوں پر فتح کا جشن ترتیب دیا گیا پرچم کشائی کے بعد برطانیہ کے جانور گیت گایا گیاپھر جنگ میں کام آنے والی بھیڑ کو پورے اعزاز کے ساتھ دفنادیا گیابعد ازاں اس کی قبر کے سرہانے ایک جھاڑی بھی لگا دی گئی سنوبالؔ نے قبر کے پاس کھڑے ہو کرسب جانوروں سے خطاب کیا اپنے مقصد پر قربان ہونے والی بھیڑ کو خراج تحسین پیش کرنے کے بعداس کا سارا زور اس بات پر تھا کہ ضرورت پڑنے پر ہر ایک جانور کواسی طرح جانوروں کے باڑہ کی خاطر اپنی جان تک قربان کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔
تمام جانوروں نے متفقہ طور پر بعض فوجی اعزاز بنانے کا فیصلہ کیا مثلاً: ایک تمغہ سب سے بہادر جنگجو کیلئے، اور ایک تمغہ جنگ میں جان کی قربانی دینے والے کے لیے پہلے تمغہ کا نام انہوں نے ’’ جانوروں کا ہیرودرجہ اول ‘‘اور دوسرے تمغہ کا نام ’’جانوروں کا ہیرودرجہ دوم ‘‘ رکھا ۔ پہلا اعزازی تمغہ اس جنگ کے نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے سنوبالؔ اور باکسرؔ کو دیا گیااور دوسرا تمغہ جان پر کھیل جانے والی بھیڑ کوعطا کیا گیا۔
لمبی بحث و تمحیص کے بعد اس معرکہ کا نام’’کاؤ شیڈ جنگ‘‘ رکھا گیا کیونکہ انسانوں پر خفیہ اور فیصلہ کن حملہ کا آغاز یہیںسے کیا گیا تھا۔ مسٹر جونزؔ کی بندوق ابھی تک کیچڑ میں ہی لتھڑی پڑی تھی اور سبھی جانتے تھے کہ عمارت کے اندر کارتوس بھی کافی مقدار میں پڑے ہوئے تھے چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ بندوق کو جھنڈا لہرانے والے ڈنڈے کے نچلے سرے پر فوجی اسلحہ کی ایک علامت کے طور پر نصب کر دیا جائے اور ہرسال دومرتبہ داغا جائے یعنی بارہ اکتوبرکو جس دن کاؤشیڈ جنگ ہوئی تھی اور ’’ مڈ سمر ڈے ‘‘ یعنی جس دن انسانوں کے خلاف بغاوت عمل میں آئی تھی۔
جاری ہے